ٹرمپ سے ملاقات پاکستان اور عاصم منیر کیلیے کتنی مفید رہی؟

فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی امریکی صدر ٹرمپ سے ہونے والی غیر معمولی ملاقات نے نہ صرف خطے میں پاکستان کی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے بلکہ عاصم منیر کو بھی مضبوط کیا ہے جنکی قیادت میں پاک فوج نے خطے کا بدمعاش بننے کی کوشش میں مصروف انڈیا کو جنگ میں شکست دینے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انھوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ روکنے پر شکریہ کے لیے عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا تھا۔ٹرمپ نے بتایا کہ انکی جنرل عاصم سے ایران کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ آرمی چیف ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ شاید دوسروں سے بہت بہتر۔ انکا کہنا تھا کہ ’میں پاکستانی آرمی چیف عاصم منیر سے ملاقات کو اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتا ہوں۔‘

امریکی صدر نے بتایا کہ ان کی انڈیا کے وزیراعظم مودی سے بھی کچھ ہفتے قبل ملاقات ہوئی تھی۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان اور انڈیا دونوں بڑی جوہری طاقتیں ہیں اور دونوں کے بیچ جوہری جنگ چھڑ سکتی تھی مگر ’دو ذہین لوگوں نے جنگ روکنے کا فیصلہ کیا۔‘ یاد رہے کہ جنرل عاصم منیر سے ملاقات سے ایک روز پہلے صدر ٹرمپ نے بھارتی وزیراعظم مودی کو فون کر کے کشمیر پر ثالثی کے لیے دوبارہ اپنی خدمات کی پیشکش کی تھی لیکن مودی نے اسے قبول نہیں کیا۔

جب صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ایران کے حوالے سے کوئی بات ہوئی تو انکا کہنا تھا کہ ’وہ ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور وہ اس صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔ یہ نہیں کہ ان کے اسرائیل سے تعلقات خراب ہیں، وہ دونوں کو جانتے ہیں، درحقیقت شاید ایران کو زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ لیکن وہ اس ووت دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور انھوں نے مجھ سے اتفاق کیا۔‘ لیکن ٹرمپ نے وضاحت نہیں کی کہ جنرل عاصم منیر نے ان سے کس بات پر اتفاق کیا۔ امریکی صدر نے کہا کہ ’میں نے انھیں یہاں اس لیے بلایا کیونکہ میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا کہ انھوں نے انڈیا کیخلاف ایک بری جنگ کی طرف قدم نہیں بڑھایا۔‘

خیال رہے اس سے قبل ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ ان کی کوششوں کی بدولت پاکستان اور انڈیا کے مابین جوہری جنگ کا خطرہ ٹل گیا تھا۔ یاد رہے پاکستان آرمی چیف 14 جون سے امریکہ کے دورے پر ہیں اور امریکی صدر سے ان کی ملاقات پہلے سے ہی طے شدہ تھی۔جنرل عاصم منیر اور امریکی صدر کی ملاقات کو اسلام آباد میں ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایران پر اسرائیل کے 13 جون کو ہونے والے حملے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تنازع شدت اختیار کر چکا ہے اور اس وقت یہ چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ آیا امریکہ خود بھی ایران کے خلاف کارروائی کا حصہ بنے گا یا نہیں۔

جنرل عاصم منیر سے ملاقات سے قبل وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران کے خلاف اسرائیلی حملوں میں شریک ہونے جار رہے ہیں تو ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’میں شاید ایسا کروں یا پھر شاید نہ کروں۔ کوئی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ایرانی حکومت تبدیل ہو سکتی ہے تو ان کا جواب تھا: ’یقیناً، کچھ بھی ہو سکتا ہے، ہے نا؟‘

یاد رہے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے مئی کے اواخر میں ایرانی افواج کے چیف آف سٹاف محمد حسین باقری سے ملاقات کی تھی جو 13 جون کو ہونے والے اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے۔ اس کے علاوہ وہ رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات کرنے والے پاکستانی وفد میں بھی شامل تھے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ صدر ٹرمپ نے کسی غیر ملکی فوجی سربراہ کو اس نوعیت کی براہِ راست ون آن ون ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس مدعو کیا ہو۔ اس سے قبل 2001 میں جنرل پرویز مشرف نے بطور صدر اور فوجی سربراہ، اس وقت کے امریکی صدر جارج بش سے ملاقات کی تھی۔

Back to top button