نون لیگ کی وعدہ خلافیوں پر پیپلز پارٹی کا نواز شریف سے رابطہ

وفاقی اور پنجاب حکومت کی مسلسل وعدہ خلافیوں کے بعد پیپلز پارٹی نے پاور شئیرنگ بارے اختلافی امور ڈائریکٹ نوازشریف کے ساتھ طے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہونے کے بعد قائد نون لیگ نواز شریف سے براہ راست رابط کر کے معاملات طے کرنے کی نئی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد خبریں سامنے آئی تھیں کہ صدر آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے مابین اختلات کی بڑھتی خلیج کو کم کرنے کیلئے تمام اختلافی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے تھے اور حکومت سے مذاکرات کیلئے قائم تمام کمیٹیاں تحلیل کرتے ہوئے خود وزیر اعظم شہباز شریف سے بات کرنے کا عندیہ دے دیا تھا۔ تاہم اب ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر آصف زرداری نے پیپلز پارٹی رہنماؤں کے اتحادی حکومتوں بارے تحفظات اور اعتراضات کا معاملہ وزیر اعظم شہباز شریف  کی بجائے قائد مسلم لیگ نون میاں نواز شریف کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پیپلز پارٹی ذرائع کے مطابق صدر آصف علی زرداری جلد سابق وزیر اعظم نواز شریف سے رابطہ کریں گے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو کی بھی نواز شریف سے ملاقات کا امکان ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی معاہدے پر عملدرآمد کے لیے نواز شریف سے رابطہ کر رہی ہے اور انہیں وفاقی اور پنجاب حکومت سے متعلق پارٹی رہنماؤں کے تحفظات سے آگاہ کیا جائے گا۔

پیپلز پارٹی ذرائع کے مطابق پارٹی نواز شریف سے طے شدہ مطالبات پورا کرنے کا مطالبہ کرے گی اور ان سے مذاکرات میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی جائے گی، ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے مکمل طور مایوس ہو چکی ہے۔ اس لئے پارٹی قیادت نے اتحاد کو بچانے کیلئے اختلافی معاملات نواز شریف کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے ن لیگ کے ساتھ مفاہمتی کمیٹیاں تحلیل کر دی ہیں اور صدرآصف علی زرداری کو پاور شیئرنگ کے حوالہ سے فیصلہ سازی کا حتمی اختیار دے دیا ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے مابین پائے جانے والے اختلافات جلد حل ہو جائیں گے۔

مبصرین کے مطابق سال 2022 میں مخلوط حکومت کے قیام کے بعد سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں ہی اقتدار کی سیج پر ایک ساتھ ہیں تاہم دونوں جماعتوں میں گاہے بگاہے نوک جھونک کے سیشن بھی چلتے رہتے ہیں۔ کبھی پیپلز پارٹی کی جانب سے نون لیگ کی کارکردگی پر تنقید کے نشتر برسائے جاتے ہیں تو کبھی وعدہ خلافیوں پر لیگی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔ کبھی حکومتی فیصلوں پر کھل کر تحفظات کااظہار کیا جاتا ہے تو کبھی پیپلز پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اتحاد سے نکل جانے کی مشورے نما دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ایسے حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے مابین اختلافات اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ پیپلزپارٹی اب اتحاد سے نکل جانے کی دھمکیاں دینے پر مجبور ہو گئی ہے؟ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ سامنے آنے والے تحفظات اور اعتراضات کے بعد پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی مجبوری کی شادی مزید کتنا عرصہ چلے گی؟

پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے مابین اختلافات بارے تجزیہ نگار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی میں ہلچل کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے کیوں کہ حکومتوں کو بنے ہوئے اب ایک سال کا عرصہ ہو چکا ہے اور سیاسی استحکام کے علاوہ معاشی استحکام بھی پیدا ہو رہا ہے۔اس کے علاوہ اس کی کوئی اور توجیح نہیں ہو سکتی کہ پیپلز پارٹی اب زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے کیوں کہ موجودہ سیٹ اپ میں دور دور تک پیپلز پارٹی کا فی الوقت حکومت میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’پیپلز پارٹی کا اصل مسئلہ پنجاب میں اپنے سیاسی کردار کی بحالی ہے جو ممکن نہیں ہو پا رہی۔ حکومت سے اُن کا کوئی بڑا اختلاف نہیں ہے۔ گورنر ہاوس میں ان کی حالیہ میٹنگ میں ان کے درمیان معاملات طے تھے۔ اور ان مطالبات کی روشنی میں ہی احکامات جاری ہوئے۔ بلاول صاحب پارٹی کے لیڈر ہیں وہ اپنے بیانات سے حکومت کو دفاعی محاذ پر رکھنا چاہتے ہیں۔‘ تاہم بعض دیگر مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مجبوری کی شادی ہے اور کچھ بھی ہو جائے موجودہ سیٹ اَپ میں یہ ایک دوسرے کے بغیر کچھ بھی نہیں اور اس حقیقت کا ادراک سب کو ہے۔ پیپلز پارٹی کی پوزیشن چوں کہ چھوٹی ہے اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ سیاسی اور دیگر فوائد حاصل کرنے کے لیے اپنا پریشر بنائے رکھنا چاہتی ہے اس کے علاوہ اس کی کوئی اور توجیح نہیں ہو سکتی۔

Back to top button