سیاسی اور پارلیمانی نظام مسلسل سوالیہ نشان بن گیا ہے،فضل الرحمان

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کاکہناہے کہ سیاسی اور پارلیمانی نظام مسلسل سوالیہ نشان بن گیا ہے۔
اسلام آباد میں عوامی نیشنل پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فضل الرحمان نے کہا کہ ملک کا سیاسی اور پارلیمانی ڈھانچہ مسلسل سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے، موجودہ حکومت عوام کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ ہے۔ ہم پرامن اختلاف اور مارچ کررہے ہیں لیکن یہی عوامل بغاوت کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
فضل الرحمان کاکہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں سرکاری فنڈز کا دس فیصد غیر ریاستی مسلح گروہوں کو منتقل کیا جاتا ہے۔ملک کے تین بڑے صوبوں، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں عام شہری دن رات غیر محفوظ ہیں۔ قبائلی علاقے مسلح گروہوں کے زیر اثر ہیں، کاروباری افراد بھتے دینے پر مجبور ہیں، جبکہ عوامی وسائل اور معدنی ذخائر بھی متاثر ہورہے ہیں۔
جے یوآئی کے رہنما مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ سرکاری وسائل کا بڑا حصہ عوامی ترقی پر خرچ ہونے کے بجائے مسلح گروہوں کو جارہا ہے۔ دنیا بھر میں سرمایہ کاری کے ماڈل میں عوام اور ریاست دونوں کو حصہ ملتا ہے لیکن پاکستان میں اتھارٹی قائم کرنے کے نام پر اختیارات عوام اور پارلیمنٹ سے چھینے جاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے فاٹا انضمام پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ نو برس گزرنے کے باوجود اب پھر جرگہ سسٹم بحال کرنے کی بات ہورہی ہے۔ اگر امن و امان کی ذمہ داری پھر قبائل پر ہی ڈالنی تھی تو انضمام کا مقصد کیا تھا؟
