عمران کا احتساب سے بچنے کے لئے جنرل باجوہ پر دباؤ
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی نے دعوی کیا ہے کہ سابق
وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا ہے کہ وہ انھیں احتساب سے بچائیں
۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر نجم سیٹھی نے لکھا کہ ان کی چڑیا نے کنفرم کیا ہے کہ 21 مارچ کو سابق وزیراعظم عمران خان نے جنرل باجوہ سے التجا کی تھی کہ اگر حزب اختلاف اپنی عدم اعتماد کی تحریک واپس لیتی ہے، تو وہ اس کے بدلے قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور نئے الیکشن کروانے کے لئے تیار ہیں۔ نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ تاہم جب اپوزیشن نے ان کی بات ماننے سے صاف انکار کیا تو عمران خان نے این آر او حاصل کرنے کیلئے ذاتی طور پر سابق صدر آصف علی زرداری کو پیغام بھیجا، لیکن زرداری صاحب نے بھی ایسی ریلیف دینے سے صاف انکار کر دیا۔ سیٹھی نے لکھا کہ اب عمران خان پانے خلاف ممکنہ فوجداری مقدمات سے بچنے کے لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
دوسری جانب سینئیر صحافی طلعت حسین نے بھی اسی قسم کی خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نے اپنے قریبی دوست ملک ریاض حسین کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل آصف زرداری کے پاس بھیجا اور ووٹنگ کا حصہ نہ بننے کی درخواست کی، لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا تھا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے امریکہ کے بعد اب پاکستانی فوجی قیادت کے خلاف شروع کی گئی سوشل میڈیا مہم کا بنیادی مقصد آرمی چیف جنرل باجوہ پر این آر او حاصل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔ اس مہم کا ایک اور مقصد فوج میں دراڑ پیدا کرنا ہے اور اس سلسلے میں ریٹائرڈ فوجیوں کی ایکس سروس مین سوسائٹی عمران کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے۔
ان حالات میں سیاسی و سماجی صورتحال انتہائی خطرناک ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے عوام کو مسلسل تشدد پر اکسایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے ججوں، الیکشن کمیشن اور فوجی قیادت کو باقائدہ گالیاں دی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں عمران نے الیکشن کمیشن کے افسران کے گھروں پر جا کر احتجاج کرنے کی کال دی جبکہ شیریں مزاری اور پی ٹی آئی کے متعدد لیڈران کی طرف سے مفتاح اسماعیل اور رانا ثنااللہ کے خلاف توہین مذہب کے جھوٹے الزامات لگا کر عوام کو مشتعل کیا گیا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران دانستہ طور پر ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلتا نظر آرہا ہے لیکن حیران کن طور پر ریاست کا قانون اور ملک کے سیکیورٹی ادارے اس کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد سے عمران کی جانب سے شروع کیے جانے والے اس تماشے کے پیش نظر ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ ریاستی اداروں خاص کر فوج اور عدلیہ کی اس لاچاری کی وجوہات کیا ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ سیکیورٹی ادارے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے اور عوام کو تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف کاروائی کرنے سے قاصر کیوں ہیں؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ آج اپنے ہی بنائے ہوئے جال میں پھنس چکی یے اور اسے باہر نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے گزشتہ کئی دھائیوں سے اس بیانیئے کو تواتر کے ساتھ فروغ دیا جاتا رہا کہ سیاست دان بے ایمان، نااہل اور ملکی سالمیت کے لیئے خطرہ ہیں۔ اس بیانیئے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی مارشل لاء لگائے گئے۔
عوام کے ساتھ ساتھ خود فوج کے افسران بھی اس پراپگینڈے کا شکار بنے۔ جب عمران خان کو سیاست میں متعارف کروایا گیا تو اس بیانیئے پر بھرپور زور دیا گیا۔ عوام کو تاثر دیا گیا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی چوروں اور ملک دشمنوں کے ٹولے ہیں جبکہ عمران ایک صاف، نیک اور ایماندار شخص ہے جو ملک و قوم کی بہتری چاہتا ہے اور وزیر اعظم بن کر ملک کی تقدیر بدل دے گا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی افسران، اور اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد عمران کو ایک مسیحا سمجھنے لگے جبکہ ان کے دلوں میں دیگر سیاسی پارٹیوں کے خلاف نفرت شدید ت تر ہو گئی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کا اصل منصوبہ یہ تھا کہ عمران جیسے ناتجربہ کار شخص کو اقتدار کی مسند پر بٹھا کر نظام کو خود کنٹرول کریں اور مزے اڑائیں۔ اسٹیبلشمنٹ اپنا یہ مقصد حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہی اور پچھلے پونے چار برس بیک سیٹ ڈرائیونگ کے مزے لیتی رہی۔ لیکن اس کے نتیجے میں جو پاکستان میں جو معاشی، سفارتی اور سیاسی بحران پیدا ہوا اس نے اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے پر پانی پھیر دیا اور اس کا ہائبرڈ نظام حکومت دھڑام سے نیچے آ گرا۔ محض ہونے چار برس میں سفارتی سطح پر پاکستان تنہا ہو گیا، ملک پر چڑھنے والے قرضوں کا حجم دوگنا ہو گیا جبکہ مہنگائی اور معاشی خسارے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے جس کے نتیجے میں عوام کی چیخیں نکل گئیں۔
جس ٹولے کو اسٹیبلشمنٹ نے مسلط کیا تھا اس نے بھی ملک کو برباد کرنے میں پورا حصہ ڈالا اور دھڑلے سے چوری چکاری میں مصروف رہا۔ چنانچہ حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ فوج کو دفاعی بجٹ اور یہاں تک کہ اپنی تنخواہوں اور پنشن کے لالے پڑ گئے۔ اولسکے علاوہ ایک نااہل اور ناکام حکومت کا ساتھ دینے کی وجہ سے فوجی قیادت کو عوامی تنقید کا بھی براہ راست نشانہ بننا پڑ رہا تھا جس سے سے تنگ آ کر فوجی قیادت نے عمران سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا اور بظاہر سیاست سے دوری اختیار کر تے ہوئے نیوٹرل ہو گئی۔
یہی وہ وقت تھا جب موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا گیا کیا۔ لیکن یہاں یہ مسئلہ آڑے آ گیا کہ فوج میں پچھلی کئی دہائیوں سے جاری سیاستدان مخالف پراپیگنڈے کا شکار موجودہ اور ریٹائرڈ فوجی افسران نہ صرف خود عمران کے ساتھ کھڑے ہو گئے بلکہ انہوں نے ملک کے بااثر حلقوں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی ساتھ ملا لیا۔ موجودی اور ریٹائرڈ افسران اور اپر مڈل کلاس کی طرف سے ملنے والی حمایت نے عمران کو دلیر بنا دیا اور اس نے آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا کر زبردستی اقتدار پر قابض رہنے کی کوشش کی جسے ناکام بنانے کے لیے بالآخر فوج اور عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا پڑا، یوں عمران کو گھر جانے پر مجبور کر دیا گیا۔
لیکن جانے سے پہلے خان صاحب اپنے کرم نوازوں کی مدد سے بیرونی مداخلت کے ڈریعے امپورٹڈ حکومت لانے کا ایسا شوشہ چھوڑ گے جس نے فوجی قیادت کی نیندیں بھی اڑا دیں۔ عمران نے اپنے اقتدار سے ہٹائے جانے کو امریکی سازش قرار دے دیا اور اس سازش میں سپریم کورٹ کے ججوں، فوجی قیادت، اپوززیشن پارٹیوں کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو بھی شامل کر لیا۔ اس کے بعد جلسوں جلوسوں، اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور عوام کو تشدد پر اکسانے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جو آج بھی جاری ہے۔ لیکن فوجی قیادت اس ڈر سے خاموش ہے کہ اگر اس نے کوئی انتہائی قدم اٹھایا تو اسکے ماضی میں شریف اور زرداری مخالف پراپگینڈہ کا شکار عمران کے شیدائی موجودہ اور ریٹائرڈ افسران اور بااثر عوامی حلقوں کی طرف سے شدید ترین رد عمل آئے گا۔
ملک کیخلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے
لہذا سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں جبکہ ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، اس سارے تماشے کا نتیجہ بہرحال خوفناک ہی نکلے گا اور عوام جو پہلے ہی بدحال ہے مزید بدحالی کے ساتھ ساتھ خانہ جنگی کا بھی شکار ہو جائی گے۔
Pressure on General Bajwa to avoid Imran’s accountability video