حکومت نے مہنگائی بم پھینکا تو خود بھی اڑ جائے گی

عمران خان کے سابقہ دور حکومت میں ہونے والی تاریخی مہنگائی کے ستائی ہوئی عوام نے نئی اتحادی حکومت کے آنے پر سکھ کا سانس لیا ہی تھا کہ نئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے کی خبر بریک کر دی جو عوام پر بجلی کی طرح گری ہے۔ وزیر خزانہ نے یہ بری خبر سنائی ہے کہ حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینا ہو گی کیونکہ کپتان حکومت ہمارے لئے بارودی سرنگ بچھا کر گئی تھی جس نے اب پھٹ کررہنا ہے۔

تاہم معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اگر بارودی سرنگ پھٹی تو اس کے نتیجے میں نئی حکومت کی بھی دھجیاں اڑ سکتی ہیں، لہذا پٹرولیم مصنوعات پر یکمشت سبسڈی ختم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

مفتاح اسماعیل نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس میں بتایا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر سبسڈی برقرار رکھنے کیلئے حکومت کو 96 ارب روپے درکار ہیں جو۔کہ حکومت چلانے کے اخراجات سے بھی ڈبل ہیں، اس وقت حکومت پٹرول کی مد میں 21 روپے جبکہ ڈیزل کی مد میں 51 روپے سبسڈی دے رہی ہے، دوسری جانب آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ سبسڈی کو واپس لینے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کے ساتویں جائزے میں پہلے بھی تاخیر ہوئی۔

لیکن اگر حکومت پیٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی ختم کرتی ہے تو نہ صرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائیگا بلکہ مجموعی طور پر مہنگائی کا نیا طوفان آ سکتا ہے، سبسڈی ختم ہونے سے پیٹرول 21 روپے اور ڈیزل 52 روپے مہنگا ہو جائے گا، آئی ایم ایف کا وفد جلد پاکستان آئے گا اور مذاکرات کے بعد حتمی معاہدہ ہوگا۔

معاشی ماہرین کے مطابق موجودہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، حکومت بے نظیر انکم سے ٹارگٹڈ سبسڈی کے ذریعے مہنگائی کے اثرات کو کم کر سکتی ہے، معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کا آئی ایم ایف کے پاس جانا لازمی تھا کیونکہ معاشی عدم استحکام، سٹاک مارکیٹ اور روپے پر دباؤ اسی بے یقینی کی وجہ سے تھا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کا کیا بنے گا؟ یاد رہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے کیریکٹر سرٹیفکیٹ کی حیثیت رکھتا ہے، اگر آئی ایم ایف پروگرام غیر متوقع طور پر بند ہوتا ہے تو ہمیں اگلے چار پانچ مہینے میں 12 ارب ڈالر درکار ہیں، اس لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا ضروری تھا۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے کے مخالف ماہر معاشی امور ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ ہم 34 سال سے آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہیں، اگر اس سے معاشی بہتر آنا ہوتی تو اب تک پاکستان اپنے پاوں پر کھڑا ہو چکا ہوتا، آئی ایم ایف پروگرام سے ملک میں مہنگائی مذید بڑھے گی اور مہنگائی کے خلاف بیانیہ رکھنے والی جماعتیں بھی اس کا حصہ بنیں گی۔ دوسری جانب مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ عمران حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کو منجمند کر کے نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائی تھیں، یہ معاشی اعتبار سے غلط اور سیاسی فیصلہ تھا کیونکہ عمران کو پتا تھا کہ میرا اقتدار ختم ہو رہا ہے اور اس فیصلے کا خمیازہ اگلی حکومت بھگتے گی، اب برسراقتدار آنے کے بعد مفتاح اسماعیل پہلے دن سے ایک ہی بات کیے جا رہے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات پر دی گئی سبسڈی ختم کرنا ہو گی، ایسا ہوا تو مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا جس کا سیاسی نقصان نقصان نئی حکومت کو ہو گا۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کا فائدہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جن کے پاس دو سے زیادہ گاڑیاں ہوتی ہیں، جس کے پاس چھوٹی گاڑی یا موٹر سائیکل ہے اس کو فائدہ نہیں ہوتا، اس کا متبادل طریقہ کار یہ ہے کہ اگر پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی ماہانہ 96 ارب روپے کی سبسڈی میں سے نصف بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستحقین کو دے دی جائے تو ان کی قوت خرید میں بہتری آ سکتی ہے۔

پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرلیں

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کی بہتری اور مہنگائی پر قابو پانے کا واحد فارمولا سیاسی استحکام ہے، سیاسی استحکام اور معاشی استحکام ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں، موجودہ حکومت سابق حکومت کیخلاف منصوبہ بندی کر رہی ہے اور سابق حکمران انہیں گندا کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، موجودہ حکومت کو چاہئے کہ اپنی سیاسی بصیرت کو بروئے کار لائے اور جتنی جلدی ہو سکے، سیاسی قوتوں کو ساتھ ملا کر سیاسی استحکام لائے تب جا کر معاشی مسائل حل ہوں گے۔

If the government drops the inflation bomb it will fly away video

Back to top button