وارث میر اور علی شریعتی

تحریر: فیصل میر
پاکستان اور ایران، دو مسلم ممالک جہاں بیسویں صدی کے وسط میں فکری جمود کو توڑنے کے لیے دو ایسی شخصیات نے جنم لیا جنہوں نے قلم کو ظلم کے خلاف ہتھیار بنایا۔ ایران میں ڈاکٹر علی شریعتی اور پاکستان میں پروفیسر وارث میر — دو مختلف تہذیبی، لسانی اور سیاسی ماحولوں میں پرورش پانے والے یہ مفکر، فکری مزاحمت اور شعوری بیداری کے علمبردار تھے۔
ڈاکٹر علی شریعتی نے ایرانی معاشرے میں مذہب کو اقتدار کے پنجے سے آزاد کروانے کی جدوجہد کی۔ان کے نزدیک دین کا اصل مقصد انسان کو ظلم کے خلاف کھڑا کرنا ہے۔ ان کی فکر کا مرکزی نکتہ یہی تھا کہ مذہب کو عوامی طاقت بنایا جائے، نہ کہ حکمرانوں کا آلہ۔ ان کا کہنا تھا:
“اسلام وہ ہے جو موسیٰ کے ہاتھ میں ہو، فرعون کے دربار میں نہیں۔”
دوسری جانب، پاکستان میں پروفیسر وارث میر نے اسی نظریے کو اپنے مخصوص سماجی و سیاسی تناظر میں اپنایا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں جب مذہب کو ریاستی پالیسی کا جزو بنا کر اسے فکری غلامی کا ذریعہ بنایا جا رہا تھا، تب وارث میر نے اخباری کالموں میں کھل کر اس پالیسی کی مخالفت کی۔ وہ لکھتے ہیں:
“جب مذہب کو اقتدار کا ہتھیار بنا دیا جائے تو وہ رہنمائی کے بجائے غلامی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔”
دلچسپ اور قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ پروفیسر وارث میر نے اپنی تحریروں میں علی شریعتی کے اقتباسات اور افکار کو کئی بار شامل کیا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، وہ ان شخصیات کو بھی شریعتی کی فکر سے روشناس کراتے رہے جو پاکستان میں مزاحمت کی علامت بنیں۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ ستم میں، پروفیسر وارث میر نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ کئی فکری نشستوں میں شرکت کی، جہاں انہوں نے انہیں ڈاکٹر علی شریعتی کی تحریروں سے متعارف کروایا۔ ان تحریروں نے محترمہ پر گہرا اثر چھوڑا، اور بعد ازاں شہید بے نظیر بھٹو نے علی شریعتی کی فکری میراث کو نہ صرف پڑھا بلکہ اپنی سیاسی سوچ میں اس کی جھلک بھی شامل کی۔ یہ بات شریعتی کی تحریروں کی آفاقی اپیل کا ثبوت ہے کہ ایک ایرانی مفکر کی آواز، پاکستان کی سب سے بڑی جمہوری رہنما کے ذہن و دل میں گونجی۔
علی شریعتی نے مذہبی شخصیات کو جامد اور رسم پرست پیر بننے کے بجائے متحرک اور انقلابی کردار کے طور پر پیش کیا، خصوصاً امام حسینؓ کو ظلم کے خلاف سب سے عظیم مزاحمت کی علامت قرار دیا۔ وارث میر بھی اپنے کالموں میں امام حسینؓ کو جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر پیش کرتے رہے۔
آج جب ایک بار پھر پاکستان اور ایران جیسے ممالک میں مذہب، سیاست اور ریاست کا گٹھ جوڑ عوامی شعور کو دبانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے، تو شریعتی اور وارث میر کی فکر نئی نسل کے لیے امید کی کرن بن سکتی ہے۔ ان کی تحریریں آج کے دور میں اور بھی زیادہ اہم ہو گئی ہیں، کیونکہ وہ نہ صرف سوال اٹھانے کا حوصلہ دیتی ہیں، بلکہ خود احتسابی، فکری آزادی اور سچ بولنے کا ہنر بھی سکھاتی ہیں۔
پروفیسر وارث میر اور ڈاکٹر علی شریعتی کا پیغام سادہ تھا، لیکن انقلابی:
“سوچو، سوال کرو، اور جمود کو توڑو!”
یہ دونوں روشن چراغ صرف ماضی کے فکری رہنما نہیں، بلکہ حال کے سناٹے میں صدا کی صورت زندہ ہیں۔ آج ہمیں پھر ان کی ضرورت ہے — اپنے ضمیر، اپنی فکر اور اپنے قلم کو زندہ رکھنے کے لیے