انقلاب کا چورن بیچنے والا عمران فوج سے ہی ڈیل کیوں کرنا چاہتا ہے؟

پاکستانی عوام کو انقلاب کا چورن بیچنے والے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے ساتھی اس بات پر پختہ ایمان لا چکے ہیں کہ اس گھر کی اصل مالک فوجی اسٹیبلشمینٹ ہے اور عوام ہوں یا ان کے منتخب نمائندے، ان سب کی حیثیت کرایہ دار کی ہے۔ خان صاحب کو آج بھی کامل یقین ہے کہ جن کے ’’فیض‘‘سے کل ایک نیا پاکستان بنا تھا وہی ان کے اقتدار کا راستہ دوبارہ ہموار کر سکتے ہیں، لہذا بہادر کپتان کی ضد ہے کہ وہ سیاست دانوں سے نہیں بلکہ صرف اور صرف جرنیلوں سے ڈیل کرے گا۔

معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری اپنی ایک تازہ تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر عمران واقعی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بعد جمہوریت پسندی کی راہ پر گامزن ہوچکے ہیں، سویلین بالادستی کے خواہاں ہیں، اور ملک کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو پھر گھر کے مکینوں سے ملکر فوجی قبضہ واگزار کروانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ خان صاحب گھر کا مالک بننے کی جدوجہد پر یقین کیوں نہیں رکھتے؟۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران اپنی انا کی اساطیر میں قید ہیں۔ وہ اڈیالہ جیل سے تو شاید کبھی رہا ہوجائیں مگر انکا اپنی سوچ کی قید سے چھٹکارا پانے کا کوئی امکان نہیں۔ جب آپ کی سوچ یہ ہے کہ میں نے طاقتوروں سے ہی بات کرنی ہے اور غیر سیاسی قوتوں کے نمائندوں کو جھک کر سلام کرنا ہے تو پھر انقلاب اور مزاحمت کے ڈھکوسلوں پر کوئی کیسے یقین کرے۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ عمران خان کو ڈیالہ جیل میں قید ہوئے چند مہینے ہی گزرے ہیں لیکن انہوں نے شکایتوں کے انبار کھڑے کر دیے ہیں۔ قائد ِانقلاب نے گلہ کیا یے کہ وہ قید تنہائی کا شکار ہیں اور یہ کہ انہیں سزائے موت کے قیدیوں کیلئے مخصوص کال کوٹھڑی میں رکھا گیا ہے، تاہم حکومت پنجاب نے ان کے ان دعووں کی کلی کھول کر رکھ دی ہے۔ جب جیل میں قید تنہائی کے شکار عمران سے میڈیا کے نمائندوں نے جیل میں ہی حمود الرحمان کمیشن رپورٹ سے متعلق انکے متنازع ٹویٹ کا پوچھا تو موصوف فرمانے لگے کہ میں ٹویٹ کی ذمہ داری لیتا ہوں البتہ اس کے ساتھ جو ویڈیو جاری کی گئی، اس اس پر بات نہیں کروں گا۔ایک صحافی نے پوچھا ،خان صاحب! جب میاں نوازشریف اپوزیشن میں تھے اور وہ شیخ مجیب الرحمان کی بات کیا کرتے تھے اور حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا حوالہ دیا کرتے تھے تو آپ کا فرمان عالیشان تھا کہ فوج پر تنقید کرکے میاں نوازشریف اس ادارے کو تباہ کرنا چاہتا ہے اور خود شیخ مجیب الرحمان بننا چاہتا ہے، لیکن اب آپ خود وہی باتیں کر رہے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ اس سوال کے جواب میں خان صاحب نے یہ بچگانہ موقف اپنایا کہ تب تک میں نے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ پڑھی نہیں تھی، لیکن اب پڑھ چکا ہوں۔۔

بلاول بھٹو سے پی پی خیبرپختونخوا کے وفد کی ملاقات

 

بلال غوری کہتے ہیں کہ خدا جانے خان صاحب نے آئین اور جمہوریت سے متعلق بھی کچھ پڑھ رکھا ہے یا نہیں؟محبانِ خان کہتے ہیں آپ ماضی کی غلطیوں پر گرفت نہ کیجئے۔ ان کے مصاحبین و پیروکار اصرار کرتے ہیں کہ سب راہروان عشق انہی راستوں پر چل کر آتے ہیں اور شعوری ارتقا کے نتیجے میں حقیقی منزل پاتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا میاں نوازشریف ،سب کسی جرنیل کی اُنگلی پکڑ کر سیاست میں آئے ۔اگر عمران خان نے بھی اپنے پہلے دورِ حکومت میں سنگین نوعیت کی غلطیوں کا ارتکاب کیا تو اس بحث میں اُلجھ جانے کے بجائے آگے بڑھئے اور یہ دیکھئے کہ آج وہ کہاں کھڑے ہیں۔بلال غوری کہتے ہیں کہ یوتھیوں نے بالکل بجا فرمایا ۔انسان بدل جائے تو ماضی کے کردار پر طعنہ زنی کم ظرف لوگ کیا کرتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان مصائب و آلام کی وادیوں سے گزر جانے کے بعد کندن ہوچکے ہیں؟ جب ان سے جیل میں ملنے والے صحافیوں نے  عمران خان سے یہ پوچھا کہ اب تو سپریم کورٹ نے بھی سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی تجویز دیدی ہے، کیا آپ سیاستدانوں کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں۔ اپ ے جواب میں کپتان نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر واضح کہا کہ میں صرف ان سے بات کروں گا جو طاقتور ہیں۔ پھر انہوں نے فخریہ انداز میں بتایا کہ جب جنرل مشرف برسر اقتدار تھے تو انہوں نے وزیراعظم شوکت عزیز سے بات چیت کرنا گوارہ نہیں کیا بلکہ جنرل مشرف کے نمائندوں سے مذاکرات کیا کرتے تھے۔یہ محض جوش جذبات میں کہی گئی بات نہیں بلکہ ان کے انقلاب کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ بلال غوری کہتے ہیں کہ اگر عمران کو سیاست دانوں کی بجائے فوج سے ہی ڈیل کرنی ہے تو پھر عوام کو انقلاب اور مزاحمت کا چورن بیچنا بند کر دیں۔

Back to top button