چارڈمی گورنرز پاکستانیوں کو سالانہ کتنے ارب روپے میں پڑتے ہیں؟

چارڈمی گورنرز پاکستانیوں کو سالانہ کتنے ارب روپے میں پڑتے ہیں؟پاکستان میں جمہوری پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے لیکن تمام صوبوں میں وفاق کی نمائندے کے طور پر گورنرز کی تعیناتی عمل میں لائی جاتی ہے۔  تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ بظاہر علامتی سمجھے جانے والے گورنرز کے یہ عہدے ملکی بجٹ پر کتنے بھاری پڑتے ہیں۔ چاروں صوبوں میں موجود گورنر ہاوس کیسے کام کر رہے ہیں، ان پر سالانہ کتنا پیسا خرچ کیا جا رہا اور وہ عوامی فلاح کے لیے کیا کیا کر رہے ہیں۔

لاہور کے مشہور زمانہ مال روڈ کے وسط میں واقع پنجاب کا گورنر ہاؤس 88 ایکڑ یا 700 کنال پر مشتمل ہے۔گورنر ہاؤس میں موجود تحریری تاریخ کے مطابق 16 ویں صدی میں مغل دور میں بننے والی یہ عمارت پہلے ایک مقبرہ تھی، جسے سنہ 1830 میں جب سکھ پنجاب پر راج کر رہے تھے تو ایک رہائشی عمارت میں تبدیل کر دیا گیا۔انگریزوں کے قبضے کے بعد یہ لیفٹیننٹ گورنر کی رہائش گاہ اور دفتر بن گیا جو بٹوارے تک استعمال ہوتا رہا، اور آزادی کے بعد یہ پنجاب کا گورنر ہاؤس بن گیا۔ انگریز دو میں چار مرتبہ اس کی بلڈنگ میں اضافہ کیا گیا۔ اس میں آخری تبدیلی سنہ 1915 میں لیفٹیننٹ گورنر ڈونلڈ میکلوڈ کے دور میں کی گئی۔

اس تاریخی عمارت میں بیک وقت مغل، سکھ اور برطانوی طرز تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔ وسیع و عریض سبزاہ زاروں پر مشتمل گورنر ہاؤس کا مرکزی دروازہ مال روڈ پر ہی واقع ہے۔ اس کا ایک حصہ گورنر کی رہائش گاہ اور دوسرا سیکریٹریٹ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سیکریٹریٹ کے لیے یہاں پرنسپل سیکریٹری سے لے کر 21 افسران تعینات ہیں۔

گورنر کی رہائش گاہ اور گورنر ہاؤس کے لیے ملٹری سیکریٹری سمیت الگ سے 14 افسران 24 گھنٹے کام پر مامور ہوتے ہیں۔پنجاب کے گورنر ہاؤس کا سالانہ بجٹ 35 کروڑ روپے ہے جس کا زیادہ تر حصہ ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں صرف ہوتا ہے، جبکہ باقی ماندہ حصہ اس تاریخی عمارت کی دیکھ بھال کی نذر ہو جاتا ہے۔

پنجاب کے گورنر ہاؤس کو مزید کارآمد بنانے کے لیے اس کے سیکریٹریٹ کو پنجاب انفارمیشن کمیشن کے ساتھ بھی منسلک کر دیا گیا ہے، یعنی اگر آپ کسی بھی حکومتی محکمے سے متعلق معلومات لینا چاہتے ہیں تو یہاں درخواست دے کر حاصل کر سکتے ہیں۔

عمران خان کے دورِ حکومت میں انہوں نے گورنر ہاؤس کی دیواریں توڑ کر اسے ایک عوامی جگہ بنانے کا اعلان تو کیا تھا تاہم ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ پنجاب کا گورنر تمام سرکاری یونیوسٹیوں کا چانسلر بھی ہوتا ہے۔ اور یونیورسٹیوں میں نوکریوں اور دیگر معاملات پر اساتذہ اور ملازمین کی اپیلیں بھی سنتا ہے۔اس وقت پنجاب کے گورنر پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سردار سلیم حیدر خان ہیں جو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کے فارمولے کے تحت اس عہدے پر براجمان ہیں۔

ویسے تو چاروں صوبوں کے گورنر ہاؤس تاریخی اہمیت کے حامل ہیں, لیکن پاکستان کے تناظر میں صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کا گورنر ہاؤس غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ بٹوارے کے بعد جب قائداعظم محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے تو یہ عمارت گورنر جنرل ہاؤس کہلانے گی۔ حتی کہ سنہ 1956 میں جب ملک میں ایک طرح سے صدارتی نظام لاگو ہوا اور گورنر جنرل سکندر مرزا پہلے صدر بنے تو یہی عمارت ملک کا پہلا ایوان صدر بھی بن گئی۔

انتخابی عذرداری کیس: سپریم کورٹ کا قاسم سوری کی طلبی کے اشتہار جاری کرنے کا حکم

 

سنہ 1970 میں کراچی کی جگہ اسلام آباد ملک کا دارالحکومت بن گیا۔ ون یونٹ بھی ختم ہو گیا اور سندھ صوبہ اور کراچی اس کا دارالحکومت بنا تو یہ عمارت گورنر سندھ کے زیر استعمال آ گئی اور تب سے گورنر ہاؤس کراچی کہلاتی ہے۔تاریخی اعتبار سے یہ عمارت سنہ 1843 میں برطانوی جنرل سر چارلس نیپیئر کی رہائش گاہ تھی اور اس وقت اس کا نام ’گورنمنٹ ہاوس‘ تھا۔ نیپیئر کے جانے کے بعد یہ عمارت حکومت برطانوی ہند نے خرید لی اور اسے سنہ 1937 تک کمشنر سندھ کے دفتر اور رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔

گورنر ہاؤس کراچی کا سالانہ بجٹ 19 کروڑ روپے ہے جبکہ یہاں بھی رہائش گاہ اور سیکریٹریٹ الگ الگ ہیں۔ اس کے افسران کی کل تعداد 22 ہے تاہم گورنر ہاوس سندھ کی ایک بات یہ بھی ہے کہ یہ حکومت کے ساتھ ملکر ترقیاتی کاموں کا بھی حصہ بنتا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق اس وقت گورنر ہاؤس کراچی شہریوں کے لیے ایک رہائشی عمارت بنا رہا ہے جس کا بجٹ 21 ارب روپے سے زائد ہے۔ اس وقت کامران ٹیسوری سندھ کے گورنر ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت میں واقع گورنر ہاؤس بھی نوآبادیاتی دور کی ایک عمارت ہے۔ 20 ویں صدی کے اوائل میں بنائی جانے والی یہ عمارت اب سرکاری طور پر گورنر خیبر پختونخوا کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ اس کے اندر ایک سوا کلومیٹر کی سرنگ بھی ہے جو قلعہ بالاحصار تک جاتی ہے۔

ملک کے باقی گورنر ہاؤسز کی نسبت گورنر ہاؤس پشاور زیادہ متحرک رہا ہے کیونکہ فاٹا کے علاقوں کو چلانے کے سارے ایگزیکٹو اختیارات گورنر خیبر پختونخوا کے پاس ہی ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ گورنر ہاؤس پشاور کے اور بھی کیمپ آفسز بھی ہیں جیسا کہ ایک کیمپ آفس سیاحتی مقام نتھیا گلی اور ایک شمالی وزیرستان رمزق میں ہے۔گورنر ہاوس پشاور کا بجٹ فاٹا کے ادغام کے بعد 31 کروڑ روپے ہے پہلے یہ 64 کروڑ تھا۔ اس میں زیادہ تر حصہ اس تاریخی عمارت کو بچانے کے لیے صرف ہوتا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق پانچ سالوں میں صرف عمارت کی تزئین و آرائش کے لیے 80 لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔ اس وقت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے فیصل کریم کنڈی گورنر خیبرپختونخوا ہیں۔

کوئٹہ کے ضرغام روڑ پر واقع عمارت کوئٹہ ریزیڈینسی جو اب گورنر ہاؤس کہلاتی ہے، بھی نوآبادیاتی دور کی ایک تاریخی بلڈنگ ہے۔ سنہ 1888 میں بننے والی یہ عمارت ابتدائی طور پر برطانوی راج میں چیف کمشنر بلوچستان کی رہائش گاہ تھی۔سنہ 1935 کے زلزلے میں یہ عمارت تباہ ہوئی جسے 1942 میں وائسرائے ہند نے دوبارہ تعمیر کروایا۔ بٹوارے کے بعد یہ عمارت گورنر جنرل کے چیف کمشنر اور بعد ازاں گورنر کے زیرِاستعمال میں آئی۔اس گورنر ہاؤس میں 1500 اقسام کے درخت اور ایک چڑیا گھر بھی ہے۔ باقی گورنر ہاوسز کی طرح یہاں بھی گورنر کی رہائش گاہ اور سیکرٹریٹ الگ کام کرتے ہیں اور افسروں کی تعداد 18 ہے۔ گورنر ہاؤس بلوچستان کو وقتاً فوقتاً عوام کے لیے کھولا جاتا ہے تاکہ وہ اس تاریخی عمارت کا نظارہ کر سکیں۔ اس وقت یہاں مسلم لیگ ن کے شیخ جعفر خان مندوخیل بطور گورنر موجود ہیں۔

Back to top button