ایرانی صدر کی موت حادثاتی تھی یا کسی سازش کا نتیجہ؟

ایرانی حکام کی جانب سے صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں کسی بھی تخریب کاری کے کسی قسم کے شواہد نہ ملنے کے اعلان کے باوجود بہت سے سوالات تاحال حل طلب ہیں۔ایران کی دوسری اہم ترین شخصیت یعنی سابق صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر تقریباً 16 گھنٹے تک لاپتہ کیسے رہا؟ یہ ہیلی کاپٹر یا اس کا ملبہ کہاں موجود ہے، ایران کے سکیورٹی ادارے 16 گھنٹے تک اس کا کوئی سراغ کیوں نہ لگا سکے؟کیا ہیلی کاپٹر فنی خرابی کی وجہ سے گِرا؟ کیا اچانک کاک پٹ کے اندر کوئی ایسا غیر متوقع واقعہ ہوا جو اس حادثے کا سبب بنا؟ کیا موسم کی صورتحال یعنی شدید دھند اور گہرے بادل اس حادثے کی وجہ تھے؟ کیا یہ ہیلی کاپٹر فضا ہی میں تباہ ہو چکا تھا یا زمین پر ہارڈ لینڈنگ کے دوران یا اس کے بعد تباہ ہوا؟ کیا یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ تھا؟ ہیلی کاپٹر کے لاپتہ ہونے اور اس کے ملبے کی نشاندہی ہونے کے دوران یعنی 16 گھنٹوں میں کیا ہوتا رہا؟سابق صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے کے چند روز بعد بھی نہ صرف اِن سوالات کا جواب واضح نہیں ہے بلکہ اس ضمن میں سامنے آنے والے تازہ بیانات اور تصاویر نے الجھنوں اور سوالات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر واقعے کی پہلی رپورٹ میں ایران کے جنرل ہیڈ کوارٹر نے ’بلندی پر پہاڑ کے ساتھ ٹکراؤ‘ کے نتیجے میں آگ لگنے کے علاوہ تمام دیگر امکانات کو رد کیا ہے۔اس رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’ہیلی کاپٹر مقررہ راستے پر محو پرواز تھا اور حادثے سے ڈیڑھ منٹ پہلے تک یہ کانوائے میں موجود دو دیگر ہیلی کاپٹرز کے ساتھ رابطے میں تھا، ہیلی کاپٹر کی باڈی پر گولیوں یا اس جیسی چیزوں کے کوئی نشانات نہیں دیکھے گئے۔ کنٹرول ٹاور کے ساتھ ہیلی کاپٹر کے ہونے والے رابطے میں بھی کسی مشتبہ گفتگو کی نشاندہی نہیں ہوئی۔‘

ایران کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق عام خیال یہی ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر دورانِ پرواز ایک پہاڑ سے ٹکرا گیا جس کے نتیجے میں صدر ابراہیم رئیسی اور ایرانی وزیر خارجہ سمیت تمام مسافر جاں بحق ہو گئے۔ تاہم پہلوی دور حکومت میں 20 سال تک ایرانی ہیلی کاپٹر کے پائلٹ رہنے والے مسعود صدیقیان سوال اٹھاتے ہیں ’اگر صدر رئیسی کا ہیلی کاپٹر تیز رفتاری سے پہاڑ کے اوپری حصے سے ٹکرایا تو یہ کم اونچائی پر پیچھے کیوں چلا گیا اور ہیلی کاپٹر کی دم اونچائی پر کیسے رہ گئی؟یا اگر یہ کسی پہاڑ سے ٹکرا کر اور پائلٹس کے کنٹرول سے باہر ہو کر بے قابو ہوا اور چاروں طرف گھومنے لگا تو اس کی دم ٹھیک ٹھاک حالت میں کیوں موجود ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ’ہیلی کاپٹر ہوائی جہاز کی طرح نہیں ہوتا اور اس پر نصب مضبوط روٹر بلیڈ یعنی پنکھے کی وجہ سے قدرتی طور پر اسے پاس موجود درختوں کو تباہ کر دینا چاہیے تھا۔‘ایک اور امکان یہ ہے کہ جب ہیلی کاپٹر پہاڑ سے ٹکرایا تو اس کا انجن اور پنکھے بند ہو گئے۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اگر ایسا ہوا تو اس کی وجہ کیا تھی؟

ایران کی مسلح افواج کے جنرل ہیڈ کوارٹر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ ہیلی کاپٹر میں پہاڑ سے ٹکرانے کے بعد آگ لگ گئی تھی۔ تاہم ایرانی فوجی ہیلی کاپٹروں کے سابق پائلٹ مسعود صدیقیان کا کہنا ہے کہ ’اگر حادثے کے نتیجے میں لگنے والی آگ اتنی شدید تھی کہ کاک پٹ میں زیادہ تر مسافر اور خاص طور پر پائلٹ شدید جل گئے، تو اس صورت میں جائے حادثہ سے سامنے آنے والی چند تصاویر میں چند اشیا کو محفوظ حالت میں کیوں دیکھا جا سکتا ہے اور ہیلی کاپٹر کے چند دیگر حصے جلنے کے نتیجے میں سیاہ کیوں نہیں ہوئے؟‘

اس بات کا فی الحال کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہیلی کاپٹر میں دوران پرواز کوئی دھماکہ ہوا۔لیکن مسعود صدیقیان کا کہنا ہے کہ ’کاک پٹ میں کنٹرولڈ یعنی کسی چھوٹے دھماکے کے امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ شاید ایک ایسا دھماکہ جس نے پائلٹس سے ہیلی کاپٹر کا کنٹرول چھین لیا ہو۔‘صدیقیان کا کہنا ہے ’کاک پٹ کی مکمل تباہی اور باقی مسافروں سے زیادہ پائلٹوں کی لاشوں کا جلنا اور چند میٹر کی دوری سے ملنے والی ہیلی کاپٹر کی دُم۔۔۔ ہو سکتا ہے اس سب کی وجہ کیبن میں کنٹرول شدہ دھماکہ ہو۔ لیکن یہ محض ایک اندازہ ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے مزید شواہد درکار ہوں گے۔‘

پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو اپنا کردار ادا کرسکتا ہوں: محمود خان

 

سابق صدر ابراہیم رئیسی کے دفتر کے سربراہ غلام حسین اسماعیلی، جو سابق صدر کے کانوائے میں موجود دو ہیلی کاپٹروں میں سے ایک پر سوار تھے، نے ایرانی ٹی وی پر حادثے کے بعد دیے گئے اپنے پہلے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’آسمان صاف تھا مگر پھر بادل سامنے آ گئے۔‘ایران کی محکمہ موسمیات کے مطابق اُس روز تیز ہوا، طوفان یا گہرے بادلوں کی کوئی پیشگوئی نہیں تھی۔تاہم حادثے کے دن کی سیٹلائٹ تصاویر اس علاقے میں بادلوں کی موجودگی کی تصدیق کرتی ہیں اور بی بی سی ویریفائی کی ٹیم نے بھی تصدیق کی ہے کہ جس علاقے سے پرواز شروع ہوئی تھی وہاں موسم بہتر تھا اور آہستہ آہستہ، جیسے ہی یہ ہیلی کاپٹر سنگن مائن کے علاقے کے قریب پہنچے، بادلوں گہرے ہونا شروع ہو گئے۔آسمان پر بادلوں اور وادی میں شدید دھند کے ساتھ ساتھ، حکام کے درمیان اس بات پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا موسمی حالات ’پرواز کے لیے مناسب‘ تھے یا نہیں۔ابراہیم رئیسی کے دفتر کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پرواز کے لیے موسم خراب نہیں تھا اور انھیں کوئی وارننگ نہیں ملی تھی۔ لیکن محکمہ موسمیات کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر عبدالرسول کے مطابق حادثے کے دن صدر اور ان کے ساتھیوں کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر کو ’اورنج وارننگ‘ دی گئی تھی۔ایران کے موسمیاتی نظام میں اورنج وارننگ شدت کے لحاظ درمیانے درجے کی وارننگ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خراب موسم کے منفی اثرات اور ممکنہ نقصانات کا امکان ہو سکتا ہے۔

سفر کے دوران ایران کے وزیر برائے مواصلات صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ نہیں بلکہ سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ دوسرے ہیلی کاپٹر میں موجود تھے۔ اس بات پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ دورانِ سفر وزیرِ مواصلات صدر ابراہیم رئیسی کو چھوڑ کر دوسرے ہیلی کاپٹر میں کیوں سوار ہوئے۔یہ تینوں ہیلی کاپٹر ساتھ ہی اُڑ رہے تھے اور پھر بیچ میں موجود صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر غائب ہو گیا اور ساتھ موجود ہیلی کاپٹروں کو اس کا علم بھی نہیں ہو سکا۔صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو تلاش کرنے والے ایک ریسکیو اہلکار کا کہنا ہے کہ انھیں ایک سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ انھِیں صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے لاپتہ ہونے کا علم اس وقت ہوا جب انھیں ہیلی کاپٹر کی آواز آنا بند ہو گئی۔

اعلیٰ حکومتی شخصیات کے ساتھ ہوائی سفر پر جانے والے پائلٹس کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہ بات ’ناقابلِ یقین‘ اور ’عجیب‘ ہے کہ گھنٹوں گزرنے کے باوجود حکام کو صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے بارے میں کوئی خبر نہ مل سکی تھی۔ان کا مزید کہنا ہے کہ شاید حفاظتی تدبیروں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے ٹرانسپونڈرز بند کر دیے گئے ہوں، لیکن اس کے باوجود بھی یہ ناقابلِ یقین بات ہے کہ 16 گھنٹے گزر جانے کے باوجود بھی حکام کسی بھی ڈیوائس کے ذریعے صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کا پتا نہیں لگا سکے۔تاہم یہ بات ناقبل یقین ہے کہ صدر بغیر ٹریکنگ ڈیوائس والے ہیلی کاپٹر میں سوار تھے، وہاں یقیناً کوئی ٹریکنگ ڈیوائس ہو گی، اگر ایسا تھا تو ہیلی کاپٹر اچانک ریڈار سے غائب کیسے ہو گیا؟‘ایسے بہت سارے سوالات ہیں جن کا جواب ہمیں نہیں مل سکا ہے اور نئی معلومات ملنے تک شاید صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں موت ایک پہیلی ہی بنی رہے۔

Back to top button