خفیہ ایجنسیوں کا ناقد شاعراغوا کے بعد گھر واپس کیسے پہنچا؟

 24 مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کی جانب سے لاپتہ شاعر احمد فرہاد کی بازیابی سے متعلق کیس میں کوئی خاص پیشرفت نہ ہونے پر وفاقی وزیر قانون، سکیٹر کمانڈر آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور ڈائریکٹر انٹیلیجنس بیورو کی ذاتی حیثیت میں طلبی اور عدم اطمینان پر وزیرِ اعظم سمیت پوری کابینہ کو عدالت میں طلب کرنے کے دھمکی آمیز ریمارکس کے بعد شاعر احمد فرہاد کی گرفتاری ظاہر کر دی گئی ہے۔ جس کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ عدالت کی جانب سے جب بھی کسی لاپتہ فرد بارے سخت ایکشن لیا جاتا ہے تو وہ کیسے بازیاب ہو جاتا ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا یے کہ کہیں لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے والے خود ہی لوگوں کو غائب تو نہیں کرتے۔

قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان کی حالیہ تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ لاپتہ افراد کے مقدمات میں جب بھی عدالتوں نے پولیس اور وزارت داخلہ کے افسران کی سرزنش سے آگے نکل کر خفیہ اداروں کے افسران کو طلب کیا تو لاپتہ افراد کی بازیابی کے امکانات بڑھتے نظر آئے۔

اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے کیسز کو کور کرنے والے صحافیوں کے مطابق ایسا متعدد بار دیکھنے میں آیا کہ ایک طرف عدالتوں نے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو طلبی کے نوٹسز جاری کیے اور دوسری طرف افراد یا تو اپنے گھروں کو واپس آ گئے یا پھر اُن کی کسی نہ کسی کیس میں گرفتاری ظاہر کر دی گئی۔تاہم اس کے برعکس 2018 میں پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا سے لاپتہ ہونے والے صحافی مدثر نارو کی بازیابی کے لیے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو عدالت طلب کیا لیکن اس کے باوجود بھی مدثر نارو بازیاب نہیں ہو سکے۔گذشتہ برس نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو بھی لاپتہ ہونے والے بلوچ طالب علموں کے حوالے سے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ طلب کیا گیا تھا لیکن اس طلبی کے باوجود تاحال متعدد بلوچ طالبِ علم بازیاب نہیں ہو سکے۔

اس حوالے سے صحافی اور تجزیہ نگار حامد میر کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے جبری طور پر گمشدگی کے واقعات کو روکنے کے لیے پارلیمان اپنا کردار ادا نہیں کر رہی۔انھوں نے کہا کہ سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے دور میں اس حوالے سے کچھ کام ضرور ہوا تھا لیکن جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی۔حامد میر کا کہنا تھا کہ عدالت کا ایک جج جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے نوٹس جاری کرنے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔’عام تاثر یہی ہے کہ سویلین اداروں کے پاس شاید لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے کے لیے وہ وسائل موجود نہیں جو فوج کے زیرِ انتظام خفیہ اداروں کے پاس ہیں۔‘انھوں نے کہا اسی لیے جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی سے متعلق جو درخواستیں دائر کی جاتی ہیں ان میں وزارتِ دفاع کو بھی فریق بنایا جاتا ہے۔

پیٹرول کی قیمت میں 12 روپے لیٹر تک کمی متوقع

 

دوسری طرف جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی سے متعلق مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ اگر عدالت کسی حاضر سروس فوجی افسر کو پیش ہونے کا حکم دیتی ہے تو قانون کے مطابق یہ اس (افسر) کی ڈیوٹی ہے کہ وہ متعلقہ عدالت میں پیش ہو کر اپنا مؤقف بیان کرے۔ تاہم’بدقسمتی سے فوجی حکام کی جانب سے عدالتی نوٹسز کو اس طرح اہمیت نہیں دی جاتی جس طرح اس کو اہمیت دینے کا تقاضا ہے۔‘ تاہم کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت صدیقی نے تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع فیض آباد پر دیے گیے دھرنے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران اس وقت کے اسلام آباد کے آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر برگیڈیئر رمدے کو طلب کیا تھا اور وہ عدالتی حکم پر عدالت میں پیش بھی ہوئے تھے۔انھوں نے کہا کہ یہ عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون پر عمل داری کو یقینی بناتے ہوئے جن خفیہ اداروں کے افراد کو طلبی کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں انھیں ہر صورت میں عدالت میں پیش کروائیں۔انھوں نے کہا کہ حکومت نے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کا کمیشن بنایا ہوا ہے لیکن اس کمیشن کے پاس فوج کے خفیہ اداروں کو نوٹس جاری کرنے یا ان سے جواب طلب کرنے کا اختیار ہی نہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ لوگ کمیشن کی کارکردگی سے سخت نالاں ہیں۔

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ بظاہر یہی وجہ ہے کہ لوگ وہاں جانے کی بجائے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے عدالتوں سے رجوع کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ دس برس سے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ ہیں۔جبری گمشدگیوں کے معاملے پر کام کرنے والی انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے اس ادارے کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

Back to top button