عمران خان کو انقلاب کا خواب دیکھنا کیوں چھوڑ دینا چاہیے؟
معروف تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ جیل میں قید عمران خان کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے سخت موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے انقلاب کے خواب دیکھنے بند کر دینے چاہئیں اور سانحہ 9 مئی سے سبق سیکھنا چاہیئے۔ اپنے تازہ تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس وقت سیاسی کنفیوژن اپنے عروج پر ہے، جیلر اور قیدی دونوں ہی متضاد کونوں پر کھڑے ہیں اور لچک دکھانے سے انکاری ہیں۔مصالحت، مفاہمت اور مذاکرات کی ہر آواز رائیگاں جا رہی ہے، دونوں فریقین اپنے اپنے دلائل پر سخت موقف رکھتے ہیں۔ لہزا سیاسی ڈیڈ لاک حل ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جیل بھگتنے والوں کو ہرطرف تخریب نظر آتی ہے۔ ان کے خیال میں جو کچھ ان کی جماعت کے ساتھ ہوا ہے ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، ان کا تاثر ہے کہ پوری تاریخ میں بدترین دھاندلی پچھلے الیکشن میں ہوئی اور ان کا مینڈیٹ چرا لیا گیا، وہ سمجھتے ہیں جس قدر جیلیں، مقدمات اور مشکلات انہوں نے جھیلی ہیں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ جیل والے سمجھتے ہیں کہ جیلر سے تب تک مصالحت ہو ہی نہیں سکتی جب تک وہ اپنے کئے کا مداوا نہیں کرتا۔ دوسری طرف جیلر اور ان کے ساتھیوں کو ہر طرف تعمیر ہی تعمیر نظر آتی ہے، انکے مطابق پاکستانی روپیہ مستحکم ہو رہا ہے ، سٹاک مارکیٹ چڑھ رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں، برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، عرب ممالک سے سرمایہ کاری کی توقعات ہیں، چین سے سی پیک دوئم شروع ہونے والا ہے،مستقبل میں بہتری کی خوش خبریاں ہیں اعت مہنگائی بھی کم ہور ہی ہے۔
لیکن سہیل وڑائچ کہتے کہ سچ یہ ہے کہ نہ جیل میں ڈالنے والے اور نہ ہی جیل بھگتنے والے پورے سچے ہیں۔ جیل میں ڈالنے والے بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے دو وزیراعظم قتل ہو چکے، ایک جوڈیشل مرڈر کا شکار ہوا، ضیاء دور میں پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکنان کو گرفتار کیا گیا اور چوکوں میں کوڑے مارے گئے، درجنوں پارٹی ورکرز کو پھانسیاں دی گئیں ۔سندھ میں جہازوں سے فائرنگ کرکے مظاہرین کو مارا گیا اور یہ جدوجہد پورے گیارہ سال چلی۔ لیکن تحریک انصاف کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں انکا پیپلز پارٹی کے ورکرز سے ہونے والی زیادتیوں سے کوئی موازنہ نہیں، تاہم خدا کرے کہ یہ سب آخری ہو۔
جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد ہونے پر صارم برنی عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان چلانے والی طاقتیں جو معاشی اعداد و شمار بتاتی ہیں وہ درست بھی ہوں تو 23 کروڑ کے مقروض پاکستان کو چلانے کیلئے ہماری معیشت ہمارا ساتھ دیتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ اس ملاکھڑے میں سب سے دلچسپ فوج کا بیانیہ ہے۔ بھائی لوگ کہتے ہیں کہ آج کی فوجی قیادت پچھلی قیادت سے یکسر مختلف ہے۔ پچھلے فوجی قیادت حکومتی معاملات میں سر عام مداخلت کو اپنا حق سمجھتی تھی، جبکہ موجودہ قیادت ماضی کی اس روایت سے چھٹکارا حاصل کر کے سیاسی حکومتوں کو فری ہینڈ دینا چاہتی ہے۔ اسی طرح معیشت کو چلانے میں ماضی کے سپہ سالار روڑے اٹکاتے تھے جبکہ آج والے اس بارے حکومت کی مدد کیلئے خود میدان عمل میں کُودے ہوئے ہیں،ایس آئی ایف سی ہو یا بیرون ملک کے دورے، اوپر والے جان لڑا رہے ہیں کہ ملک معاشی مشکلا ت سے نکل آئے۔ پہلی دفعہ ایسے چیف آئے ہیں جو خود پیچھے رہتے ہیں اور دوسروں کو آگے کرتے ہیں، خود نہ میڈیا پر آتے ہیں، نہ تصویریں کھنچواتے ہیں اور نہ ہی خود لیڈر بننے کی کوشش میں ہیں۔
سہیل وڑائج کے بقول موجودہ اسٹیبلشمنٹ کا یہ موقف ہے کہ فوجی قیادت کے اچھے ارادوں اور نیتوں کی کئی لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی۔ وہ اتنی بڑی تبدیلی کو خوش آمدید کہنے کی بجائے بے جا مخالفت کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایسے نرم مزاج اور شائستہ اوپر والے پچھلے پچاس سال سے نہیں آئے اور شاید ایسے اوپر والے پھر نہ ملیں۔ بھائی لوگوں کا شکوہ ہے کہ ہم پہلی بار چیزیں ٹھیک کرنا چاہ رہے ہیں ،ماضی کی غلطیوں کا مداوا کر رہے ہیں، سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کو علامتی سزا دی، اسی طرح بھٹو کی پھانسی غلط قرار دی،فیض آباد دھرنا انکوائری چل رہی ہے آج کی فوجی قیادت نہ صرف اس پر خاموش ہے بلکہ چاہتی ہے کہ ماضی میں جو غلط ہوا وہ اب درست ہوجائے۔ لیکن اس سوچ کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کسی کواجازت دے دی جائے کہ وہ ریاست کےگریبان میں ہاتھ ڈالے۔
سہیل وڑائج کے بقول دوسری جانب جیل والے دوبارہ سے 9 مئی سے پہلے کی صورتحال میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جیل سے باہر انقلاب تیار ہے، انکے مطابق اسٹبلشمینٹ کے خلاف نفرت انتہا کو پہنچ چکی ہے، بس کوئی ایک واقعہ یا حادثہ ایسے انقلاب کو جنم دے گا اور فوج کا اقتدار ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا۔ ان کے خیال میں پھر انقلاب فرانس کی طرح گلی گلی ،محلے محلے ٹکٹکیاں اور گلوٹین لگیں گے اور انکی جماعت کو نشانہ بنانے والوں کے سر تن سے جدا ہوںگے، انکے خیال میں معاملات کا حل صرف اور صرف انقلاب ہے یا پھر حکومت کی باگ ڈور کپتان خان کو دے دی جائے ،جو واحد محب وطن لیڈر ہے۔
تاہم سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس عاجز کی رائے تو واضح ہے کہ ملک کو آگے لے جانے کا واحد راستہ مذاکرات اور مفاہمت ہے۔ اگر اس طرف پیش رفت نہ ہوئی تو موجودہ فوجی قیادت کا تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ دوسری طرف عمران خان کو بھی انقلاب کے خواب دیکھنا بند کردینے چاہئیں، اور سانحہ 9 مئی سے سبق سیخھنا چاہیئے۔