عمران پر غداری کیس چلا تو فوجی جرنیل کیسے بے نقاب ہوں گے؟
معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ اگر عمران خان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی غلطی کی گئی تو کئی فوجی جرنیل بے نقاب ہو جائیں گے۔ انکا کہنا یے کہ عام پاکستانیوں کو بھی پتہ چل جائے گا کہ 1971 میں فوجی سربراہ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے ڈھاکہ اور جنرل ارشاد احمد خان نے شکر گڑھ اور سیالکوٹ کے 500 دیہات بغیر جنگ لڑے دشمن کو دیتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ تاریخ اس سچ کو بھی دہرائے گی کہ ہتھیار ڈالنے والے اپنے ہزاروں فوجیوں کو بھارت قید سے چھڑوا کو واپس لانے اور مغربی پاکستان کا مقبوضہ علاقہ بھارت سے واپس لینے والے ذوالفقار علی بھٹو کو ان کارناموں کا صلہ ایک فوجی جرنیل ضیاالحق نے پھانسی کی صورت میں دیا۔
اپنی ایک تحریر میں حامد میر کہتے ہیں کہ جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں بالآخر ان کا جغرافیہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ پاکستان کا جغرافیہ 1971ء میں بدل گیا تھا کیونکہ حکمران اشرافیہ تاریخ سے سبق سیکھنے کیلئے تیار نہ تھی۔ 1971ء میں پاکستان کا وہ حصہ بنگلہ دیش بن گیا جہاں سے تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تھا اور جہاں آل انڈیا مسلم لیگ نے جنم لیا تھا۔ قائد اعظمؒ کے پاکستان کا دو لخت ہونا ایک قومی سانحہ تھا۔ 16دسمبر 1971ء کو پاکستان ٹوٹ گیا۔ 20 دسمبر 1971ء کو تب کے فوجی صدر جنرل یحییٰ خان کو استعفیٰ دینا پڑا کیونکہ موصوف کے خلاف نوجوان فوجی افسروں نے بغاوت کردی تھی۔ اسی دن ذوالفقار علی بھٹو نے صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا اور 26 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کی انکوائر ی کیلئےایک عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا جو بعد میں حمود الرحمان کمیشن کے نام سے مشہور ہوا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ پاکستان کا جغرافیہ تبدیل ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ بیت گیا اور ہم آج بھی اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ عام پاکستانیوں کو پڑھنی چاہیے یا نہیں۔
زراعت میں جدت، ایک ہزار طلبا کو سرکاری خرچ پر چین بھیجنے کا فیصلہ
حامد میر کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے سوشل میڈیا پر یہ بیان پوسٹ کیا گیا کہ ’’ہر پاکستانی کو حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کا مطالعہ کرنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ اصل غدار کون تھا؟ جنرل یحییٰ خان یا شیخ مجیب الرحمان؟‘‘ اس بیان کو شہباز شریف حکومت نے غداری قرار دے دیا جس پر تحریک انصاف کے کچھ رہنمائوں نے دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان تو جیل میں ہیں وہ اس بیان کے ذمہ دار نہیں لیکن عمران خان نے جیل سے پیغام بھیجا کہ وہ اس بیان کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ سابق صدر عارف علوی بھی عمران خان کے دفاع میں سامنے آگئے اور بیان دیا کہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پڑھنا یا پڑھانا کوئی غداری نہیں۔ ایف آئی اے نے اس بیان کی انکوائری شروع کردی ہے اور شیخ مجیب الرحمان کی حمایت کے الزام میں ان پر غداری کا مقدمہ بنانے کی تیاریاں نظر آتی ہیں۔ حکومت کا الزام ہے کہ عمران خان نے شیخ مجیب اور جنرل یحییٰ خان کا تقابل کرکے دراصل پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔
لیکن حامد میر کے بقول مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھول گئی کہ ماضی میں وہ بھی شیخ مجیب الرحمان اور جنرل یحییٰ کا بہت ذکر کرتی رہی ہے۔ افسوس کہ ہمارے سیاست دان سقوط ڈھاکہ کے اہم کرداروں کا ذکر غلطیوں سے سبق سیکھنے کیلئے نہیں بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے جو رہنما حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پر لڑ رہے ہیں ان میں سے اکثر نے یہ رپورٹ بالکل نہیں پڑھی۔ کچھ صاحبان سوشل میڈیا پر اس رپورٹ کے چند مخصوص حصوں کا ذکر کررہے ہیں جس کا مقصد صرف اور صرف جنرل یحییٰ خان کی رنگین مزاجی کو اجاگر کرنا ہے حالانکہ ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل حمود الرحمان کمیشن رپورٹ دراصل 1947ء سے 1971ء تک پاکستان کی سیاسی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں صرف 1971ء کی فوجی شکست کے اسباب کا جائزہ نہیں لیاگیا بلکہ ان سیاسی وجوہات کا بھی جائزہ لیاگیا ہے جن کے باعث مشرقی پاکستان نے مغربی پاکستان کے خلاف بغاوت کردی۔ جو صاحبان حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پڑھنے کی ترغیب کو غداری قرار دے رہے ہیں انہیں شاید معلوم نہیں کہ یہ رپورٹ تین حاضر سروس جج صاحبان نے لکھی تھی۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ حمود الرحمان کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس حمود الرحمان تھے۔ کمیشن میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انوارالحق اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس طفیل علی عبدالرحمان بھی شامل تھے۔ اس کمیشن نے 57 اجلاس منعقد کئے۔ آرمی، ایئر فورس اور نیوی کے 213 افسران پر جرح کی، درجنوں سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور صحافیوں کے بیانات قلم بند کرنے کے علاوہ اہم سرکاری و فوجی دستاویزا ت کا مطالعہ کیا۔ حکومت پاکستان کے تمام اداروں بشمول جی ایچ کیو نے اس کمیشن کے ساتھ بھرپور تعاون کیا لیکن جب کمیشن کی رپورٹ حکومت کو بھجوائی گئی تو فوجی قیادت نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے گزارش کی کہ فی الحال اس رپورٹ کو منظر عام پر نہ لایا جائے کیونکہ یہ رپورٹ فوج کے مورال پر منفی اثر ڈالے گی۔ بھٹو صاحب مان گئے۔ دوسری طرف کمیشن نے جن فوجی افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی بلکہ کچھ کو پرموشن مل گئی۔ جس فوج کو بدنامی سے بچانے کیلئے بھٹو صاحب نے کمیشن کی رپورٹ کو قوم سے چھپایا اس فوج کے افسران نے 1977ء میں ان کا تختہ الٹ دیا اور وہی غلطیاں دوبارہ دہرائی گئیں جن کے باعث پاکستان دو لخت ہوا۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ 2000ء میں جنرل پرویز مشرف نے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کے اہم حصے پبلک کردیئے جو کتابی شکل میں شائع ہوگئے لیکن میڈیا پر یہ دبائو رہا کہ اس رپورٹ پر بحث نہ کی جائے۔ اب اگر عمران خان پر غداری کا مقدمہ قائم ہوگا تو یقیناً عدالت میں یہ بحث ہوگی کہ اس کمیشن میں ایسی کون سی بات ہے جس کا ذکر کرنا غداری ہے کیونکہ یہ رپورٹ تو تین ججوں کی تیار کردہ ہے۔ ان ججوں نے قوم کو بتایا کہ ڈھاکہ میں ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ جنرل امیر عبداللہ نیازی کو سرنڈرکرنے کا نہی بلکہ سیز فائر کا حکم دیا گیا تھا لیکن اس نے نا صرف سرنڈر کردیا بلکہ اپنی فوج کو دشمن فوج کے افسران کو سلامی دینے کا حکم بھی دیا حالانکہ وہ مزید دو ہفتے تک ڈھاکہ کا دفاع کرسکتا تھا ۔ حمود کمیشن نے جنرل یحییٰ خان، جنرل گل حسن، عبدالحمید، جنرل پیرزادہ، جنرل غلام عمر اور جنرل مٹھا کے خلاف سازش کرنے اور 1970ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار نہ سونپنے کے الزامات پر کارروائی کی سفارش کی لیکن افسوس کہ گرفتار کرنے کی بجائے اس گل حسن کو فوج کا سربراہ بنا دیا گیا۔