شیخ حسینہ کا عوامی لیگ کی قیادت بیٹے اور بیٹی کو دینے کا فیصلہ

ایک برس پہلے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کے بعد ہونے والی فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار چھوڑ کر انڈیا فرار ہو جانے والی سابقہ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے بالاخر اپنے بیٹے سجیب واجد اور بیٹی صائمہ واجد پُتول کو عوامی لیگ کی قیادت سونپنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے، تاہم پہلے مرحلے میں دونوں کو پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں شامل کیا جائے گا اور وہ بیرون ملک سے اپنے سیاسی کیریئر کا اغاز کریں گے۔
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق شیخ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے فوج کے ساتھ اختلافات کے بعد دوبارہ سے سیاسی طور پر متحرک ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ شیخ حسینہ نے اپنے بیٹے اور بیٹی کے علاوہ اپنی چھوٹی بہن شیخ ریحانہ کے بیٹے رضوان مجیب صدیق بوبی کو بھی پارٹی کی اعلی قیادت کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس معاملے میں شیخ حسینہ وہی ’ماڈل‘ اپنانا چاہتی ہیں جو انڈین اپوزیشن جماعت کانگریس نے اپنا رکھا ہے جس میں راہول گاندھی اور پریانکا گاندھی فرنٹ لائن پر ہیں اور سونیا گاندھی سرپرست کے طور پر پیچھے موجود ہیں۔
یاد رہے کہ شیخ حسینہ 17 مئی 1981 کے بعد سے لگاتار 48 سال سے زیادہ عرصے تک بنگلہ دیش کی بانی اور سب سے بڑی سیاسی جماعت عوامی لیگ کی صدر رہی ہیں۔ لیکن اس طویل سیاسی اننگز کے دوران کسی بھی مرحلے پر انھوں نے اپنی ’جانشینی کے منصوبے‘ کے بارے میں بات نہیں کی۔ اُن کی بنگلہ دیش میں عدم موجودگی میں پارٹی کی قیادت بھی کسی کو نہیں سونپی گئی اور نہ ہی کبھی انہوں نے اس بارے کبھی کوئی اشارہ دیا تھا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق عوامی لیگ کی بنگلہ دیش پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ شیخ حسینہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک روز انھیں اپنے سیاسی جانشین کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔
لیکن 5 اگست 2024 کو بنگلہ دیش میں ہونے والی عوامی بغاوت کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ عوامی لیگ تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی اور ملک میں پارٹی کی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔
شیخ حسینہ گذشتہ ایک برس سے انڈین حکومت کی ’مہمان‘ کے طور پر انڈیا میں مقیم ہیں، جہاں اُن کی نقل و حرکت اور پارٹی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت پر سخت پابندیاں ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ شیخ حسینہ کا اقتدار ختم ہونے کے بعد سے شدید دباؤ کا شکار ہے اور اگر انہوں نے اپنی جماعت کو بچانا ہے تو جانشینی کے مسئلے پر توجہ دینا ہو گی۔ انکے مطابق شیخ حسینہ اب 78 برس کی ہو چکی ہیں، لہذا اب انہیں اس معاملے میں جلدی کرنا ہو گی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ شیخ حسینہ واجد نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو پارٹی کی مرکزی قیادت میں شامل کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چند ماہ قبل تک شیخ حسینہ کی بیٹی صائمہ واجد دلی میں عالمی ادارہ صحت یعنی ڈبلیو ایچ او کی ریجنل ڈائریکٹر تھیں۔ لیکن ڈبلیو ایچ او حکام کی جانب سے انھیں غیر معینہ مدت کی چھٹی پر بھیج دیا گیا کیونکہ بنگلہ دیش کی حکومت نے ڈبلیو ایچ او کے ساتھ کام کرنے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔ اپنی نوکری سے فارغ ہونے کے بعد صائمہ نے سیاست میں سرگرم ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
دوسری جانب شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد امریکی شہریت رکھتے ہیں اور مستقل طور پر امریکہ میں مقیم ہیں، تاہم اپنی والدہ کی حکومت گرنے کے بعد وہ پارٹی کا مرکزی چہرہ اور ترجمان بن کر اُبھرے ہیں۔ وہ اکثر اندرون و بیرون ملک میڈیا کو انٹرویوز بھی دیتے رہتے ہیں۔
لیکن چونکہ صائمہ اپنی والدہ کے ساتھ دہلی میں مقیم ہیں اس لیے انہوں نے سیاسی محاذ پر شیخ حسینہ کی براہ راست مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ وہ اپنی والدہ کی آن لائن تقاریر کا مسودہ تیار کرنے اور پروگرام کیلنڈر ترتیب دینے میں بھی مدد کر رہی ہیں۔چونکہ شیخ حسینہ سے براہ راست ملاقاتوں پر پابندیاں ہیں، اس لیے اب صائمہ ان کی جگہ سیاسی ملاقاتیں کر رہی ہیں۔ وہ پچھلے دو مہینوں میں ایسی کئی میٹنگز کر چکی ہیں جن کا مقصد عوامی لیگ کو دوبارہ سے متحرک کرنا ہے تاکہ وہ اگلے برس ہونے والے ممکنہ انتخابات میں موثر انداز میں حصہ لے سکے۔
بی بی سی بنگلہ نے حسینہ کے نام نہاد ’جانشینی منصوبے‘ کے بارے میں عوامی لیگ کے کئی سرکردہ رہنماؤں سے بات کی لیکن یہ اتنا حساس معاملہ ہے کہ کوئی بھی اس معاملے پر ’آن ریکارڈ‘ بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔
تاہم عوامی لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن اور سابق وزیر اطلاعات محمد عرفات کا دعویٰ ہے کہ اس معاملے پر پارٹی میں ابھی تک کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارا بنیادی ہدف بنگلہ دیش میں جمہوریت کی بحالی ہے اور اس مقصد کے لیے تمام کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تاہم عرفات نے کہا کہ شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد پہلے ہی پارٹی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں اور اب صائمہ واجد بھی متحرک ہو رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شیخ حسینہ واجد کی بیٹی اور بیٹا بنگلہ دیشی سیاست میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں۔
