جبری شادیوں سے بننے والی تحریک انصاف میں جبری طلاقیں؟

عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی کو ہونےو الے پرتشدد مظاہروں میں فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد ملک کے سیاسی ماحول میں آنے والی تبدیلی واضح طور پرمحسوس کی جاسکتی ہے۔ملک میں ان دنوں تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے کسی سیاسی رہنما کی پریس کانفرس کی خبر سامنے آنے پر یہی گمان کیا جانے لگا ہے کہ وہ پارٹی سے راہیں جدا کرنے والا ہے۔حالیہ چند روز کے دوران پی ٹی آئی کے کئی مرکزی اور ضلعی سطح کے رہنما ، پریس کانفرنس کے ذریعہ پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔اگرچہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نو مئی کے پر تشدد مظاہروں سے لاتعلقی کا اظہار کرچکے ہیں لیکن مبصرین بدلتی ہوئی سیاسی ہواکے رُخ کو ان واقعات اور ان پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ردِ عمل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب اتحادی حکومت عمران خان اور ان کی جماعت کو نو مئی کے واقعات کا ذمے دار قراردیتی ہے جبکہ عسکری قیادت ان مظاہروں میں ملوث افراد کے خلاف فوجی ایکٹ کے تحت کارروائی کا اعلان کرچکی ہے۔تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف کو جس صورتِ حال کا سامنا ہے بعض اعتبار سےوہ ماضی سے مختلف تو ہوسکتی ہے لیکن نئی نہیں ہے۔
تجزیہ کارنیلو فر صدیقی کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں چھوڑنا پاکستانی سیاست میں معمول کی بات بن چکی ہے۔ ہمارے ہاں یہ عام بات ہے کہ ایک امیدوار کبھی کسی پارٹی کے ٹکٹ سے میدان میں اترتا ہے اور اگلے انتخاب میں کسی اور سیاسی جماعت کی نمائندگی کررہا ہوتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں کا کمزور ڈھانچا ہے جس کی وجہ سے بڑی قومی سیاسی جماعتوں کو بھی مقامی اشرافیہ کے گروپس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ انہیں ہمارے ہاں الیکٹبلز کہا جاتا ہے۔ تحریکِ انصاف بھی اس سے مستثنی نہیں ہے۔
ڈاکٹر سید جعفر کہتے ہیں اگر آج پی ٹی آئی سے علیحدہ ہونے والوں کی علیحدگی کو ‘جبری علیحدگی’ کہا جارہا ہے تو 2018 کے الیکشن میں جس طرح لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہورہے تھے تو وہ بھی ‘جبری شادیاں’ ہی تھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ہم ’محکمۂ ذراعت‘ کی اصطلاح سنتے تھے۔ چینلز پر فلاں پارٹی کی اتنی وکٹیں گر گئی جیسے ٹکر چلتے تھے۔ اس لیے اب پی ٹی آئی کو اس صورتِ حال کا سامنا ہے تو اسے وہ وقت یاد رکھنا چاہیے۔
ڈاکٹر سید جعفر کا مزید کہنا ہے کہ نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو رد عمل سامنے آیا وہ جارحانہ تھا جس کا آغاز اسی دن سے نہیں ہوا تھا۔ ان کےبقول، عمران خان نے ہمیشہ جارحانہ زبان اور اصطلاحات استعمال کیں۔اپنے ورکز کو تیار ہی اس طرح کیا۔ انہیں’ ٹائیگرز’ کا نام دیا اور انہیں دوسری سیاسی جماعتوں سے متنفر کیا۔ڈاکٹر جعفر احمد کے نزدیک اس وقت جو صورتِ حال پی ٹی آئی کو درپیش ہے اس کا حالیہ تاریخ میں ایم کیو ایم کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے، جب 22 اگست 2016 کو الطاف حسین نے ریاست کو چیلنج کیا تو اس کے بعد وہی لوگ جو صبح تک ان کے ساتھ تھے شام کے بعد اپنی پارٹی کے قائد سے لاتعلقی کا اظہار کرنے لگے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کا کہنا ہے کہ ماضی میں بہت کچھ ہوتا رہا لیکن ایسا نہیں ہوا کہ سیاسی احتجاج کرنے والے دفاعی تنصیبات پر چڑھ دوڑے ہوں۔ اس لیے تحریکِ انصاف چھوڑنے والے سبھی افراد کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکا جاسکتا۔ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کے اس فیصلے کی اپنی اپنی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ کئی کو درحقیقت دباؤ کا سامنا ہے اور کئی ایسے بھی ہیں جنہیں نو مئی کے واقعات سے واقعی شدید دھچکا پہنچا اور اب وہ پی ٹی آئی سے اپنی وابستگی مزید برقرار نہیں رکھنا چاہتے۔مجیب الرحمن شامی کے خیال میں پی ٹی آئی کوئی نظریاتی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک پاپولر سیاسی جماعت ہے۔
دوسری جانب صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتیں بناتی اور توڑتی رہی ہےلیکن پی ٹی آئی کو درپیش حالات میں دو پہلو ماضی سے قدرے مختلف ہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ جو رہنما پارٹی چھوڑ کر جارہے ہیں وہ سیاست سے لاتعلقی کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ وہ مستقبل میں اس فیصلے میں قائم رہتے ہیں یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن جماعت چھوڑنے پر اس طرح سیاست سے لاتعلقی کا رجحان ماضی سے قدرے مختلف ہے۔مظہر عباس کا کہنا ہے کہ دوسرا منفرد پہلو جو موجودہ حالات کو ماضی سے مختلف بناتا ہے وہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں شامل پرویز الہیٰ جیسے رہنما جو ماضی میں پارٹیاں تبدیل کرتے رہے ہیں وہ اب تک عمران خان کے ساتھ ہیں۔ دیکھنا ہے کہ وہ کب تک ان کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار اور صحافی حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ اس بار یہ بات بھی ماضی سے مختلف ہے کہ پہلے پارٹی چھوڑنے والوں کا بعد میں پتا چلتاتھا اور اس بار خبر پہلے ہی سامنے آجاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر باز گشت شروع ہوجاتی ہے اور جو پہلے عوام کی نظروں سے اوجھل تھا وہ اب ان کے سامنے کیا جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ 2013 کے بعد بھی سیاسی وفاداریاں تبدیل ہوئیں لیکن پہلے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک گھروندا مسمار کرنے والے کون سا دوسرا گھروندا تیار کررہے ہیں اس بار یہ منظر بھی واضح نہیں۔ان کے بقول بظاہر تحریکِ انصاف سے علیحدگی کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوتا نظر آرہا ہے لیکن فی الوقت ان رخصت ہونے والوں کا کوئی اور استقبال کرتا نظر نہیں آتا۔ اس بار یہ بات بھی مختلف ہے کہ جس جماعت کے لوگ جارہے ہیں وہ خاموش نہیں بیٹھ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب سیاسی وابستگیاں تبدیل ہوتی تھیں لوگوں کو اس کے محرکات کا اندازہ اس وقت بھی ہوتا تھا۔ لیکن اس بار معاملہ بہت واضح ہے اور بات تھانے دار اور تحصیل دار کی سطح پر آگئی ہے۔
سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی کے خیال میں سیاسی وابستگیاں تبدیل ہونے یا دباؤ سے کوئی سیاسی جماعت ختم نہیں ہوتی البتہ اس سے کچھ نہ کچھ نقصان ضرور پہنچتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو جس صورتِ حال کا سامنا ہے اس سے عمران خان کی مقبولیت پر اثر پڑے گا اور انتخابات
کرکٹ کا بوڑھا کھلاڑی سیاست میں اناڑی نکلا
میں بھی اس کےاثرات دکھائی دیں گے۔