آسمانی دیوتا بن جانے والے عمران کو زمین پر کیسے اتارا گیا؟

اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے والے عمران خان نے خود کو ایسا دیوتا سمجھنا شروع کر دیا تھا حکمرانی کرنا جس کا پیدائشی حق تھا، اور جس کے سامنے سر جھکا کر دوزانو بیٹھنا بلا امتیاز ہر کسی کا فرض تھا، بالآخر اسی نفسیاتی کیفیت میں انہوں نے اپنے محسنوں کے گریبان پر بھی ہاتھ ڈال دیا۔ نتیجہ یہ کہ آج موصوف سابق وزیر اعظم ہو چکے ہیں اور اپنا گریبان چاک کرکے ہذیانی کیفیت میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
سینئر صحافی حماد غزنوی روزنامہ جنگ کے لئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں لکھتے ہیں کہ جب عمران خان نے اپنے اقتدار کے دوام کی خاطر سکیورٹی اداروں کی اہم تعیناتیوں میں بے جا مداخلت شروع کی تو فوجی قیادت نے صورتحال بھانپتے ہوئے ادارے کے بہترین مفاد میں ’نیوٹرل‘ ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔
عمران کے لیے یہ ایک مشکل صورتِ حال تھی کیوں کہ انہیں اپنے پائوں پر کھڑے ہو کر حکومت کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، اب تک ان کے تمام سیاسی اور غیر سیاسی مسائل کا حل کوئی اور نکالتا رہا تھا اور وہ خاموشی سے فیض یاب ہوتے رہے تھے۔ حکومت کی عدم توجہی کا شکار، اس کے ناراض اتحادی بھی یہ سارا منظر بہ غور دیکھ رہے تھے، لہٰذا جب انہیں اپنا دیوتا زمیں بوس ہوتا نظر آیا تو وہ حکومتی بینچ چھوڑ کر اپوزیشن سے جا ملے اور یوں بیساکھیوں پر کھڑی کپتان حکومت زمین بوس ہو گئی۔
عمران خان کے دور حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے حماد غزنوی کا کہنا ہے کہ چوہوں پر بھی وہ تجربات نہیں کئے جاتے جو پاکستانی قوم کا مقدر ٹھہرے ہیں۔ کبھی بنیادی جمہوریت، کبھی محدود جمہوریت، کبھی اسلامی جمہوریت اور پھر ہائی برڈ نظام، حماقتوں کا ایک لامحدود سلسلہ، سب کا انجام ندامت، سب کا اختتام رسوائی اور رائیگانی ہے، آج 75 سال بعد بھی ہم حیران کھڑے ہیں کہ جانا کدھر کو ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ پچھلا ہفتہ بہت ہی طویل تھا۔ عدم اعتماد کی تحریک کے آغاز ہی سے عمران خان کی ’خوش نیتی‘ اور آئین ’دوستی‘ عیاں تھی، پہلے تو انہوں نے چودہ دن کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے والی ایک واضح اور سادہ آئینی شق سے سرکشی کی، اور پھر اجلاس بلایا تو اسے آخری دن تک لٹکایا اور پھر آخری دن عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ تحریک ایک بیرونی سازش کا شاخسانہ ہے، جس میں اپوزیشن میر جعفر کا کردار ادا کر رہی ہے، یعنی ستّر فی صد عوام اور ان کے نمائندے غدار قرار دے دیے گئے۔ یہ آئین سے صریحاً انحراف تھا، اور پھر سپریم کورٹ نے بھی اسے آئین شکنی قرار دیا۔عدالتِ عظمیٰ کے اس واضح فیصلے کے باوجود کپتان آئین شکنی کے رستے پر ڈٹ کے کھڑا رہا۔
حماد یاد دلاتے ہیں کہ 9 اپریل کو تقریباً 12 گھنٹے تک ووٹنگ سے انکار کے نتیجے میں ریاست کی طاقت حرکت میں آئی، عدالتوں کے دروازے کھل گئے، قیدیوں کی وین پارلیمنٹ کے سامنے پہنچ گئی، رینجرز نے پوزیشن سنبھال لی، اور عمران خان کو مبینہ طور پر طاقت ور اداروں کی لیڈرشپ نے مشورہ دیا کہ آئین کے سامنے سرنگوں ہونے میں ہی ہم سب کی بھلائی ہے،تب کہیں جا کر عمران خان کو بات سمجھ آئی، جون ایلیا نے کہا تھا ’علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جائوں، وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے‘۔
دراصل پروجیکٹ عمران خان کا آغاز 2011 میں ہوا، یہ بُت بہت محنت سے تراشا گیا، پھر برہنہ بیساکھیوں کے سہارے 2018 میں اسےقصرِ اقتدار میں نصب کر دیا گیا، بتانے والوں نے بتایا کہ سیاست دان برے لوگ ہوتے ہیں، عمران خان سیاست دان نہیں ہیں لہٰذا جملہ برائیوں سے پاک ہیں، اور اب وہ سیاست میں حصہ لیں گے یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سمیت بہت سے سیاست دانوں نے یہی لبادہ اوڑھ کرسیاست کی ہے۔
روزِ اول سے عمران خان کی سیاست کا تعلق دماغ سے نہیں بلکہ جذبات سے رہا ہے، یعنی ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر، نوے دن میں کرپشن ختم اور قوم کے لوٹے ہوئے اربوں روپے دنوں میں واپس۔ لیکن چونکہ یہ دعوے پورے نہیں ہو سکتے تھے، سو نہیں ہوئے۔ کپتان حکومت کی جانب سے اپنے اکثر سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالنے کے باوجود نہ تو عدالت میں ایک کیس ثابت ہو سکا، نہ مبینہ لوٹی ہوئی دولت کا ایک روپیہ بازیاب ہو سکا، معیشت تباہ ہو گئی، افراطِ زر اور بے روزگاری نے عوام کو دبوچ لیا، ریکارڈ قرضہ لیا گیا، اور کرپشن کے درجنوں اسکینڈلز سے صرفِ نظر کیا گیا۔ عمران کے دور میں پاکستان بین الاقوامی کرپشن پریسپشن انڈیکس میں سولہ درجے گر کے 140ویں نمبر پر یونہی تو نہیں آ گیا تھا۔
حماد غزنوی کا کہنا ہے کہ اس صورتِحال میں حکومت کی بے ڈھب کارکردگی کا بوجھ ’سیم پیج‘ کے سب دستخط کنندگان محسوس کرنے لگے۔ مطلق العنانیت غالباً عمران خان حکومت کا سب سے افسوسناک پہلو تھا، وہ اختلافِ رائے کو دشمنی سمجھتے تھے، لہٰذا آزاد میڈیا کا گلا گھونٹا گیا، آزاد ججوں کے خلاف ریفرنس بنائے گئے، الیکشن کمیشن پر چڑھائی کی گئی اور سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کیا گیا۔ یہ مبالغہ نہیں ہے کہ عمران خود کو ایک دیوتا سمجھتے تھے حکومت کرنا جسکا پیدائشی حق تھا، آخر اسی نفسیاتی کیفیت میں انہوں نے اپنے محسنوں کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
بقول حماد غزنوی اب ایک بار پھر عمران عوام کے پاس جا رہے ہیں، اس دفعہ ان کے نعرے پہلے سے بھی زیادہ خلافِ عقل، بے بنیاد اور بے سروپا ہیں، یعنی ان کے خلاف عالمی سازش ہوئی ہے اور پاکستان کے تمام سیاست دان اس سازش میں شریک ہیں۔ نئے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اس قضیے کا موزوں حل نکالا ہے کہ پارلیمان کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی تمام عسکری قیادت کو ساتھ بٹھا کر اس خط کا معاملہ دیکھے گی ،لگ کچھ یوں رہا ہے کہ ’گروہِ عاشقاں پکڑا گیا ہے، جو نامہ بر رہے ہیں ڈر رہے ہیں‘۔
عامرلیاقت نے بنی گالہ کے قصے سنانے کی دھمکی کیوں دی؟
یہ بہترین موقع ہے کہ آئین کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہونے پر عدلیہ اور عسکری قیادت کو بغیر لگی لپٹی کے بھرپور داد دی جائے، اس لمحے کا تو ہر جمہوریت اور آئین پسند کو دیر سے انتظار تھا۔ جی، ہمیں معلوم ہے کہ ماضی میں ان سے کوتاہیاں بھی ہوئی ہیں، ہم نے کچھ اور بھی سرگوشیاں سنی ہیں لیکن لمحۂ موجود میں ان کی بالغ نظری کا اقرار نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔ آپ بس ان کی ثابت قدمی کی دعا کیجیے اور نعرہ لگائے پاک فوج زندہ باد۔!
How was Imran the heavenly deity brought down to earth? video