اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا آرڈیننس کالعدم قرار دے دیا

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کو غیر آئینی قرار دیتے ہو ئے کالعدم کر دیا، اور اس کے تحت کی جانیوالی تمام کارروائیاں بھی غیر آئینی قرار دے دی ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا آرڈیننس سے متعلق متفرق درخواستوں پر سماعت کی جس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل، ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی عدالت میں پیش ہوئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جمعہ کے روز پیکا آرڈیننس سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے بعد چار صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ پیکا آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔ ہائی کورٹ نے ترمیمی آرڈیننس کو اظہار رائے کی آزادی کے خلاف بھی قرار دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے اور اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کا حق معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حق کو دبانا غیر آئینی اور جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت سے توقع ہے کہ وہ ہتک عزت کے قوانین کا جائزہ لے گی اور ہتک عزت آرڈیننس 2002 کو مؤثر بنانے کے لیے پارلیمنٹ کو مناسب قانون سازی کی تجویز دے۔عدالت کے مطابق پیکا آرڈیننس کو آئین کے آرٹیکل9،14،19 اور
عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور ایف آئی اے سائبر کرائم وِنگ کے اہلکاروں کے طرزِ عمل کی تحقیقات کرنے کی ہدایت کی ہے، سیکریٹری داخلہ کو عدالتی فیصلے کی مصدقہ نقل موصول ہونے کے 30 دنوں میں تحقیقات مکمل کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے، فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اختیارات کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوا جس کے نتیجے میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں، عدالت نے ہدایت کی ہے سیکرٹری داخلہ اختیارات کا غلط استعمال کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی سے رجسٹرار کو آگاہ کریں۔
یاد رہے کہ رواں برس فروری کے مہینے میں پاکستان میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے والے قوانین میں نئی ترامیم متعارف کروائی گئی تھیں جنھیں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے جاری کیا گیا تھا اور اس کے تحت ’شخص‘ کی تعریف کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ نئی ترامیم کے مطابق ’شخص‘ میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی کو شامل کیا گیا جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے پر قید تین سے بڑھا کر پانچ سال تک کر دی گئی تھی۔ اس صدارتی آرڈیننس کے مطابق شکایت درج کرانے والا متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا گارڈین ہو گا، جرم کو قابل دست اندازی قرار دے دیا گیا تھا جو ناقابل ضمانت تھا۔ ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا تھا کہ ٹرائل کورٹ چھ ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔ آرڈیننس کے مطابق ہائی کورٹ کو اگر لگے کہ کیس جلد نمٹانے میں رکاوٹیں ہیں تو رکاوٹیں دور کرنے کا کہے گی۔ آرڈیننس کے مطابق وفاقی و صوبائی حکومتیں اور افسران کو رکاوٹیں دور کرنے کا کہا جائے گا۔ ہر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسران کو ان کیسز کے لیے نامزد کرے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کی وفاقی کابینہ میں شامل سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے ایک پریس کانفرنس میں یہ واضح کیا تھا کہ پیکا آرڈیننس کے تحت جعلی خبر دینے والے کی ضمانت نہیں ہو گی اور کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہو گا۔
ان کے مطابق جعلی خبروں کا قلع قمع کرنے کے لیے قانون بڑا ضرروی ہے، اس لیے فیک نیوز پھیلانے والوں کو تین سال کی جگہ پانچ سال سزا ہو گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ جرم قابل ضمانت نہیں ہو گا اور اس میں بغیر وارنٹ گرفتاری ممکن ہو گی، وزیر قانون نے کہا تھا کہ ‘پیکا قانون سب کے لیے ہو گا اور جانی پہچانی شخصیات سے متعلق جھوٹی خبروں کے خلاف شکایت کنندہ کوئی عام شہری بھی ہوسکتا ہے،
خیال رہے کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی طرف سے دی جانے والی درخواست میں صدر مملکت کے سیکریٹری، وفاق، سیکریٹری قانون اور سیکریٹری اطلاعات کو فریق بنایا گیا تھا، درخواست میں کہا گیا تھا کہ اس وقت کوئی ہنگامی صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی اور قانون سازی کے لیے رائج طریقہ کار سے بچنے کے لیے جان بوجھ کر ایسا کیا گیا جس سے حکومت کے مذموم مقاصد ظاہر ہوتے ہیں، آزادی اظہار رائے کا قتل ملک میں جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے اور حکومت نے پیکا قوانین میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کی جب 17 فروری تک ایوان بالا کا اجلاس جاری تھا۔ درخواست کے مطابق ’حکومت نے ڈرافٹ پہلے ہی تیار کر لیا تھا، قانون سازی سے بچنے کے لیے سیشن ختم ہونے کا انتظار کیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس 18 فروری کو طے تھا جسے آخری لمحات میں مؤخر کیا گیا۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صحافیوں کو اسی قانون کے تحت غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا تھا جس پر ترمیم کر کے اسے مزید سخت بنایا گیا ہے۔ آرڈیننس کے ذریعے پیکا ایکٹ میں دفعہ 44 اے کا اضافہ عدلیہ کی آئینی آزادی کے خلاف ہے، کوئی بھی ملک آمرانہ طرز عمل سے زندہ نہیں رہ سکتا جہاں عوام کو اظہار رائے کے بنیادی حق کو استعمال کرنے کی پاداش میں قید کیا جائے۔ استدعا ہے کہ پیکا قانون میں ترمیم کو آئین پاکستان اور بنیادی حقوق کے منافی قرار دیا جائے۔

Related Articles

Back to top button