کیا زیارت میں سکیورٹی فورسز نے زیرحراست بلوچوں کو مارا؟

حال ہی میں زیارت میں دہشت گردوں کے ہاتھوں لیفٹیننٹ کرنل لئیق کے قتل کے بعد سکیورٹی فورسز نے جن 9 افراد کو دہشت گرد قرار دے کر ہلاک کیا ہے انکی شناخت اب بلوچ مسنگ پرسنز کے طور پر ہوئی ہے جس سے سکیورٹی فورسز کا دعوی ٰمشکوک ہوگیا ہے۔ یاد رہے کہ بلوچستان کے ضلع زیارت میں 12 جولائی کو لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا کو ان کے چچازاد بھائی سمیت اغوا کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کے طور پر علاقے میں آپریشن کرتے ہوئے کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی یا بی ایل اے کے 9 مبینہ اراکین کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں کی لاشیں شناخت کے لیے 17 جولائی کو کوئٹہ سول ہسپتال منتقل کی گئیں جن میں سے پانچ کی شناخت لواحقین نے کر لی ہے۔

تاہم انڈیپنڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق لواحقین نے اپنے جن عزیزوں کی شناخت کی ہے وہ کافی برسوں سے لاپتہ تھے اوران کی گمشدگی کے حوالے سے مقدمات بھی درج کرائے گئے تھے۔وائس فار بلوچ مسنگ پرسنزنے بھی دعویٰ کیا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مرنے والے 9 میں سے5 افراد لاپتہ تھے، جن کے کوائف اسکے پاس بھی درج تھے۔ ان میں سے ایک شہزاد بلوچ کے اہل خانہ نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہزاد کو 4 جون، 2022 کو کوئٹہ کے علاقے موسیٰ کالونی سے اغوا کیا گیا تھا۔ اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ شہزاد کے اغوا کا مقدمہ درج کرانے کے لیے انہوں نے متعلقہ تھانوں سے رجوع کیا تاہم رپورٹ درج نہیں کی گئی۔

کیا زیارت میں سکیورٹی فورسز نے زیرحراست بلوچوں کو مارا؟

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا ہے کہ زیارت میں فورسز نے جن لوگوں کو مارا وہ پہلے سے لاپتہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ لوگ مجرم تھے تو ان کو عدالت کے ذریعے سزا دی جاتی تو انہیں اعتراض نہ ہوتا۔ لیکن ان کو پہلے لاپتہ کر کے زندانوں میں رکھنا اور بعد میں مارنے کا دعویٰ کرنا انسانیت سوز ظلم ہے۔‘ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے اعداد وشمار کے مطابق زیارت آپریشن میں مارے جانے والے شمس ساتکزئی پانچ سال قبل، شہزاد احمد کو چار جون، 2022 ، ظہیرالدین کو سات اکتوبر، 2021 کو ایئرپورٹ روڈ کوئٹہ، ڈاکٹر مختیار کو چار جون کو سریاب روڈ اور سالم ولد کریم بخش کو 18 جولائی 2022 کو کوئٹہ جاتے ہوئے نامعلوم افراد نے اٹھایا تھا۔

عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے ظہیرالدین کے بھائی کی طرف سے تھانہ زرغون آباد میں واقعے کی کاپی اور اس حوالے سے عدالت میں دائر پٹیشن کو ٹوئٹر پر شیئر کیا ہے۔ یہ مقدمہ ڈاکٹر بشیر احمد نے درج کروایا جس میں انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی ظہیر الدین کے اغوا کی اطلاع دیتے ہوئے انہیں بازیاب کروانے کی درخواست کی تھی۔انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ میں عظمیٰ اکبر کے نام سے دائر کی گئی پٹیشن کی کاپی بھی شیئر کی، جس میں ظہیر الدین کو مسنگ پرسنز کی کیٹگری میں رکھا گیا ہے۔

اس سے پہلے پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ نے 16 جولائی کو ایک بیان میں بتایا تھا کہ زیارت میں کرنل لئیق کے کزن عمر جاوید کی بازیابی کے لیے آپریشن کے دوران شدت پسندوں کا ٹھکانہ جو خوست اور خلافت پہاڑوں میں تھا کلیئر کردیا گیا ہے۔ بیان کے مطابق اس دوران جب شدت پسندوں کو گھیرا گیا تو انہوں نے فورسز کو دیکھ کر فائرنگ کر دی جس میں ایک حوالدار خان محمد جان سے چلے گئے۔ اس کلیئرنس آپریشن کے دوران کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے پانچ شدت پسندوں کو فائرنگ کے تبادلے میں مار دیا گیا۔ دوسری جانب بلوچستان کے مشیر داخلہ ضیا لانگو نے 19 جولائی کو کوئٹہ پریس کلب میں زیارت آپریشن سے متعلق بتایا تھا کہ 12 جولائی کو لیفٹیننٹ کرنل لئیق اور ان کے کزن عمر کو ان کے خاندان کے سامنے زیارت سے اغوا کیا گیا، جو بلوچی واسلامی روایات کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیویز اور پولیس اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جن کے خاندان اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ ضیا لانگو نے کہا کہ اس واقعے کے بعد زیارت اور ہرنائی کے پہاڑوں میں بڑا آپریشن کیا گیا، جس دوران کرنل لئیق اور عمر جاوید کی میتیں برآمد کی گئیں۔ اس کارروائی میں حساس ادارے کا ایک اہلکار بھی جان سے گیا۔ آپریشن میں 9 شدت پسند مارے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مارے جانے والوں میں سے پانچ کی شناخت ہوگئی ہے۔ ان میں شمس ساتکزئی، انجنیئر ظہیر، شہزاد احمد، بختیار بلوچ اور سلیم کریم بخش شامل ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بی ایل اے نے بھی کرنل لئیق کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ضیا لانگو نے کہا کہ پاکستان فوج اور ایف سی نے شدت پسندوں کا قلع قمع کرنے کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن کیا جو پانچ دنوں تک جاری رہا۔

ادھر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل نے لاہور میں پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں وزیر اعظم سے زیارت واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دعویٰ کیا گیا کہ وہاں پر ایک مقابلہ ہوا ہے۔

اختر مینگل کا الزام تھا کہ مارے جانے والوں میں پانچ افراد پہلے سے سرکار کی حراست میں تھے۔ ’اس کا ثبوت ہمارے پاس موجود ہے کہ کس آدمی کو کب، کس دن، کہاں سے اٹھایا گیا تھا۔ اور پھر اس کو رپورٹ کیا گیا باقاعدہ اور ان کے لواحقین مسنگ پرسنز کے کیمپ میں بیٹھے ہوئے تھے۔‘انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ان کے مارے جانے والوں کی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے جوڈیشنل انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا۔ پولیس سرجن سنڈیمن سول ہسپتال کوئٹہ ڈاکٹر عائشہ فیض نے بتایا کہ زیارت سے ان کے پاس نو افراد کی لاشیں لائی گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں سے شناخت شدہ پانچ لاشوں کو ورثا کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ چار کی شناخت ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔

Related Articles

Back to top button