سہیل آفریدی کی غیر قانونی اففان شہریوں کاہیروبننے کی کوشش

وفاقی حکومت کے فیصلے کے برخلاف غیر قانونی افغان باشندوں کیلئےنرم گوشہ اپنانے پر خیبر پختونخوا افغان مہاجرین کا نیا مرکز بن گیا ہے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے بے دخل کیے جانے والے ہزاروں افغان باشندوں نے پشاور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ افغان مہاجرین کیلئے خیبر پختونخوا کو محفوظ پناہ گاہ بنانے میں سہولتکاری کرنے پر وزیر اعلی کے پی کے سہیل آفریدی افغانوں کے ہیرو بن گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے افغان باشندوں کی واپسی کے معاملے پر وفاق اور کے پی کے حکومت کے مابین اختلافات کی خلیج مزید بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے غیر قانونی افغان مہاجرین کی وطن واپسی کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد بلاتفریق کارروائیوں کی ہدایات جاری کر رکھی ہیں اس حوالے سے جہاں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاوہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے حکام نے وفاقی حکومت کی پالیسی پر لبیک کہا ہے وہیں دوسری جانب پی ٹی آئی نہ صرف وفاقی حکومت کی افغانستان بارے پالیسی کی کھل کر مخالفت کر رہی ہے وہیں خیبرپختونخوا حکومت غیر قانونی افغانوں کی مکمل سہولتکاری کرتی بھی نظر آتی ہے۔

افغان مہاجرین بارے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی وفاقی حکومت کی مخالفت سے افغان باشندوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جبکہ اطلاعات ہیں کہ راولپنڈی سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں مقیم افغانوں نے پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع کا  رخ کر لیا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں سے افغان مہاجرین کی منتقلی کے بعد خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں افغان باشندوں کی موجودگی میں نمایاں حد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پشاور، نوشہرہ، مردان، چارسدہ اور صوابی جیسے اضلاع میں افغان خاندانوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔سہیل آفریدی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر مؤثر اقدامات نہ ہونے کے باعث صورتحال مزید پیچیدہ ہو چکی ہے جبکہ صوبائی حکومت کو افغان مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث سخت انتظامی دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی ملک بدری بارے صوبائی حکومت کے عدم تعاون نے فیڈریشن اور صوبے کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ جس کی وجہ سے وفاق اور صوبے کے درمیان معاملات مزید سر دمہری کا شکار ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ تاہم وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی جانب سے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت نے افغان باشندوں کیلئے نئی امید پیدا کر دی ہے اور انہوں نے خیبرپختوننخوا کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ذرائع کے مطابق ملک کے مختلف شہروں میں محنت مزدوری کرنے والے افغان مہاجرین واپس اپنے ملک جانے کے اعلان پر کافی بے چین تھے۔ لیکن وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی جانب سے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت نے ان کو نئی امید دے دی ہے اور غیر قانونی افغان باشندے ملک کے دیگر شہروں سے نقل مکانی کر کےپشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں بسنا شروع ہو گئے ہیں۔ جہاں انھیں نہ صرف محفوظ پناہ گاہیں مہیا کی جا رہی ہیں بلکہ انھیں خیبر پختونخوا میں روزمرہ ضروریات زندگی کے حوالے سے تمام سہولیات بھی دستیاب ہیں۔ یعنی سہیل آفریدی سرکار ہیرو بننے کے چکر میں ریاستی اداروں کی مخالفت پر اتر آئی ہے۔

خیال رہے کہ افغان شہریوں کی وطن واپسی کی حکومتی ڈیڈلائن گزرنے کے باوجود متعدد خاندان تاحال روپوش ہیں اور افغانستان واپس جانے سے انکاری ہیں۔ جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس وقت افغان خاندانوں کی واپسی کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم مقامی افراد کی پشت پناہی کی وجہ سے ابھی تک متعلقہ ادارے اپنے مشن میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔مبصرین کامزید کہنا ہے کہ جہاں ایک طرف وفاقی حکومت کی جانب سے افغان باشندوں کیخلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے وہیں دوسری جانب وفاق کے برعکس صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت افغانوں کو بے دخل کرنے کے معاملے میں کسی قدر تذبذب کا شکار دکھائی دیتی ہے جبکہ خیبر پختونخوا کا دشوار گزار پہاڑی سرحدی علاقہ، ملک میں عسکری گروہوں کی سرگرمیاں اور فرقہ وارانہ لڑائیاں مرکزی حکومت کی غیرملکیوں بالخصوص افغانوں کو نکالنے کی مہم کے لیے چیلنج بن رہی ہیں۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان کیلئے افغانوں کو مکمل طور پر بے دخل کرنا ناممکن ہے کیونکہ وہ سرحدی باڑ نصب ہونے کے باوجود غیرقانونی راستوں یا نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر پھر واپس آ جاتے ہیں۔‘انہوں نے بتایا کہ ’سرحد پر کئی گاؤں ایسے ہیں جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان منقسم ہیں۔ اور گزشتہ تین چار دہائیوں سے انھیں راستوں سے دونوں ممالک کے باشندے مسلسل آر پار آ جا رہے ہیں۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق افغان مہاجرین کی ملک بدری میں سست روی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا چونکہ افغانستان کے ساتھ متصل ہے اور اس کے افغانستان کے ساتھ صدیوں پرانے نسلی، لسانی اور ثقافتی رشتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ افغانوں کی فطری منزل بن جاتا ہے۔اسی وجہ سے سنہ 1980 کے بعد سے افغانوں کی بہت بڑی تعداد خیبر پختونخوا میں مقیم ہے۔ ایسے افغان بھی کم نہیں ہیں جن کے پاکستانی شہریوں کے ساتھ ازدواجی بندھن قائم ہیں۔ عوامی رد عمل سے بچنے کیلئے سہیل آفریدی حکومت افغانوں کی بے دخلی میں مکمل تعاون سے انکاری ہے۔ اسی لئے افغانستان بارے وفاقی پالیسی پر عمل درآمد مجموعی طور پر سست روی کا شکار ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت کئی وجوہات کی بناء پر افغانوں کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے کیونکہ جہاں افغان شہریوں اور ان کی روایات اور ثقافت ایک جیسی ہیں وہیں جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان بھی اپنے دور حکومت میں افغان پناہ گزینوں کے ساتھ زور زبردستی کے رویے کی مسلسل مخالفت کرتے رہے ہیں۔‘ اسی لئےخیبرپختونخوا حکومت بھی اس حوالے سے جارحانہ حکمت عملی اپنانے سے انکاری ہے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!