30 منٹ پہلے پھانسی دی جانی تھی، شام کی جیلوں سے آزاد قیدیوں کی داستانیں

بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹنےاورباغیوں کی فتح کےبعد شام کی جیلوں سےآزاد ہونےوالےقیدیوں کی خوفناک داستانیں سامنے آرہی ہیں۔
الجزیرہ کی رپورٹ کےمطابق سابق شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کےخاتمےاورباغیوں کے دارالحکومت دمشق سمیت شام کےدیگرعلاقوں پر قابض ہونےکےبعد جیلوں سے آزاد کیے جانےہزاروں افراد اپنی قید کےدنوں کی داستانیں سامنےلارہے ہیں۔
الجزیرہ نےسوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو کی تصدیق کی جس میں ایک قیدی نےبتایا کہ قید میں میرا کوئی نام نہیں تھا، بس ایک نمبر تھا، مجھے بشارحکومت نےاٹھا کر قید میں ڈال دیا اور میرے گھر والےسمجھتے رہےکہ میں مر گیا۔
نوجوان نےبتایا کہ بہت سےدیگر افراد کوبھی ان کے گھر والوں کو بتائے بغیر جیل میں رکھا گیا اورانہوں نےسالوں جیل میں گزار دیے۔
شام کی حالیہ صورت حال میں کتنا جانی نقصان ہوا؟
رپورٹ کےمطابق جیل سےآزاد ہونے والے کچھ اور افراد نے بتایا کہ انہیں آج کےدن کچھ دیر قبل ہی پھانسی دی جانی تھی مگر اب وہ آزاد ہیں۔
ایک شخص نے بتایا مجھ سمیت 54 لوگوں کو آج کے دن 30 منٹ پہلے پھانسی دی جانی تھی مگر اب ہم آزاد ہیں،اب ہم دمشق کےدل میں کھڑے ہیں۔
شام کی جیل میں قید ایک اور قیدی علی حسن کو 39 سال بعد جیل سےآزادی ملی، علی حسن کو 1986 میں شامی فوجیوں نے شمالی لبنان میں ایک چیک پوسٹ سے گرفتار کیا تھا، ان کی عمر اس وقت 18 سال تھی اور وہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے، گرفتاری کےبعد سے ان کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔
حکام کی جانب سےسوشل میڈیا پر ایک اپیل کی گی کہ بشار حکومت میں جیل کےاندر کام کرنے والے اہلکار اورملازم باغی فوج کے رہنماؤں کوجیلوں میں قائم انڈرگراؤنڈ سیلز کے الیکٹرونک کوڈز فرایم کریں تاکہ وہاں قید تقریباً لاکھ افراد کو آزاد کرایا جاسکےجنہیں سی سی ٹی میں دیکھا جاسکتا ہے۔