کیا سپریم کورٹ الیکشن موخر کرنے کی اجازت دے سکتی ہے؟

سپریم کورٹ کی جانب سے 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کو پتھر پرلکیر قرار دینے کے باوجود ملک میں ایک بار پھر الیکشن ملتوی ہونے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ کچھ سیاسی حلقے نگراں حکومتی سیٹ اپ کی تبدیلی کے دعوے بھی کر رہے ہیں تاہم سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ میں سمجھتا ہوں عدلیہ انتخابات میں تاخیر کا فیصلہ نہیں مانے گی.انتخابات میں تاخیر کی خواہش دو بڑی سیاسی پارٹیوں میں زیادہ پائی جاتی ہے،اگر کوئی جماعت الیکشن کیلئے تیار نہیں توملک کسی ایک جماعت کا غلام نہیں ہوسکتا،یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت گھٹنے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔

سہیل وڑائچ نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر کی قیاس آرائیوں کو افواہ کے طور پر لیتا ہوں، انتخابات میں تاخیر کا فیصلہ ہونے کے بعد یہ خبر بنے گی، اخبار نویس جب کسی افواہ کا ذکر کرتے ہیں تو وہ صرف افواہ نہیں ہوتی اس میں وزن ہوتا ہے.اوپر کے حلقوں میں اس پر بات ہورہی ہے میں صرف لوگوں کے نوٹس میں لایا ہوں، حیران کن بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی دو بڑی سیاسی جماعتیں بھی انتخابات میں تاخیر پر آمادہ ہوگئی ہیں، میں سمجھتا ہوں عدلیہ انتخابات میں تاخیر کا فیصلہ نہیں مانے گی،انتخابات میں تاخیر کی ایک وجہ پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی نہ ہونا ہے.مینجمنٹ کے باوجود اس بات کا خدشہ ہے کہ انتخابات والے دن غیرمتوقع نتائج آجائیں، شہروں میں ابھی تک پی ٹی آئی کی مقبولیت کا تدارک نہیں ہوسکا ہے، اس بات کا امکان ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ الیکشن کے دن نکل کر نتائج تبدیل کردیں۔

دوسری جانب بعض سیاسی حلقوں کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے یی جانے والی حلقہ بندیوں کے اعلان کے بعد سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر کا خدشہ موجود ہے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کور دلشاد کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے 17 اگست 2023 کے روڈ میپ کے مطابق حلقہ بندیوں کا حتمی نوٹی فکیشن 30 نومبر کو جاری کرنے کا مجاز ہے۔

قومی اسمبلی کی 266 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی کل 593نشستوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوئے الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیاں مکمل کر لی ہیں اور تمام اعتراضات کنندگان کو ان کی مرضی کے مطابق الیکشن کمیشن نے وقت فراہم کیا اور دلائل، نقشوں، ویب سائٹس اور سکرینوں کے ذریعے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس کے باوجود بھی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کنندگان کے تحفظات برقرار رہتے ہیں تو وہ ہائی کورٹس میں اپیلیں دائر کرنے کے مجاز ہیں، جس کا آئین کا آرٹیکل 99 مکمل استحقاق دیتا ہے، لیکن توقع ہے کہ انتخابی کمیشن ہائی کورٹس کی اپیلوں کے باوجود انتخابی شیڈول 15 دسمبر کے لگ بھگ جاری کر دے گا تاکہ انتخابی عمل متاثر نہ ہو۔

کنور دلشاد کے مطابق ماضی قریب میں جولائی 2018 کے انتخابات سے پیشتر بھی الیکشن کمیشن نے جون 2018 میں حلقہ بندیوں کا حتمی نوٹی فکیشن جاری کر دیا تھا اور اپیلوں کے دروازے کھل گئے تھے۔ حلقہ بندیوں کے گزٹ نوٹی فکیشن کے خلاف سندھ، لاہور، بلوچستان اور پشاور ہائی کورٹس میں اپیلیں دائر کی گئی تھیں جس کے نتیجے میں سندھ اور لاہور ہائی کورٹس نے حلقہ بندیوں کی اپیلوں کے حق میں فیصلے صادر کرنے شروع کر دیے تھے۔اس کے بعد یہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ اگر معزز ہائی کورٹس کے فیصلوں کی روشنی میں حلقہ بندیوں پر نظرثانی کی گئی تو پھر 25 جولائی 2018 کو انتخابات کروانا ناممکن ہو جائے گا۔

اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سردار رضا نے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سے استدعا کی کہ چونکہ الیکشن ایکٹ کی دفعات کے مطابق حلقہ بندیوں کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔الیکشن کمیشن کے دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس جسٹس (ر) ثاقب نثار نے فیصلہ جاری کرتے وقت ہائی کورٹس کی تمام اپیلوں کو مسترد کر دیا اور الیکشن کمیشن کو فری ہینڈ دے دیا گیا۔اسی فیصلے کے تحت اب اگر حلقہ بندیوں پر اعتراضات کنندگان ہائی کورٹس میں اپیلیں دائر کرتے ہیں تو لامحالہ الیکشن کمیشن سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے احکامات کے تحت تمام اپیلوں کو کالعدم یا مسترد کرنے کا مجاز ہو گا اور الیکشن آٹھ فروری کو نئی حلقہ بندیوں کے مطابق منعقد ہوں گے۔

لیکن دوسری جانب اندرونی حلقوں میں قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ آنے والے انتخابات آٹھ فروری کو نہیں ہو پائیں گے اور ان کے ستمبر یا اکتوبر 2024 تک موخر ہونے کے امکانات ہیں۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس وقت ملک میں سیاسی کشمکش، تناؤ، خلفشار، تنازعات، عدالتوں میں اہم فیصلوں کے زیرِ سماعت ہونے، سیاسی جماعتوں کی تقسیم، سندھ میں شدید محاذ آرائی، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خون ریز دہشت گردی کے واقعات ہیں۔ان حالات میں یہ الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ کا بھی امتحان ہے کہ وہ انتخابات کے مقررہ وقت پر انعقاد کو

العزیزیہ اور ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف کی رہائی یقینی کیوں؟

یقینی بنائے۔

Back to top button