نواز شریف ایون فیلڈ ریفرنس سے بری، معاملہ اللہ پر چھوڑا ہے

مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بری کر دیا گیا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزا کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کو بری کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قائد مسلم لیگ (ن) نواز شریف نے کہا کہ معاملات کو اللّٰہ پر چھوڑا تھا، اللّٰہ نے سرخرو کیا ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایوین فیلڈ ریفرنس میں بریت کے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اللّٰہ نے آج ہمیں سرخرو کیا ہے، اللّٰہ کا شکر ہے، میں نے معاملات اللّٰہ پر چھوڑے تھے، دوسرے کیسز بھی اللّٰہ پر ہی چھوڑے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ایوین فیلڈ ریفرنس میں سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کردیا ہے۔قومی احتساب بیورو (نیب) نے فلیگ شپ میں نواز شریف کی بریت کیخلاف اپیل واپس لے لی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کی اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
واضح رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں جرم ثابت ہونے پر اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سنہ 2018 میں مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں تین افراد کو سزا سنائی تھی، جن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر شامل تھے۔
اس کے علاوہ نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دینے کے لیے کارروائی کا آغاز کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سنہ 2018 میں ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کو سات سال قید اور 20 لاکھ برطانوی پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی اسی مقدمے میں گیارہ سال قید اور 80 لاکھ برطانوی پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ عدالت نے مریم نواز اور ان کے شوہر کا مقدمہ الگ کر دیا تھا۔
یہ ریفرنس اس وقت سامنے آیا تھا جب 20 اپریل 2017 کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں چھ رکنی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔
اس کے بعد نیب نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف تین مختلف ریفرنس بنائے جن میں ایون فیلڈ ریفرنس جو لندن میں پراپرٹی سے متعلق تھا، جبکہ العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس شامل تھے۔ان میں سے ایون فیلڈ ریفرنس اور العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سزا ہوئی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں ان کو احتساب عدالت نے بری کر دیا تھا۔
پانامہ پیپرز کی مدد سے سامنے آنے والی ایون فیلڈ پراپرٹی لندن کے مہنگے ترین علاقے مے فئیر اور پارک لین کے نزدیک واقع چار اپارٹمنٹ ہیں جو کہ نوے کی دہائی سے شریف خاندان کے زیر استعمال ہے۔شریف خاندان پر الزام تھا کہ انھوں نے اس پراپرٹی کو غیر قانونی ذرائع کی مدد سے حاصل کی گئی رقم سے خریدا ہے۔تاہم شریف خاندان کی جانب سے دلائل میں کہا گیا کہ ایون فیلڈ پراپرٹی 1993 سے لے کر 2006 تک قطر کے شاہی خاندان کی ملکیت تھی لیکن شریفوں نے وہاں رہائش اختیار کی تھی جس کے لیے وہ وہاں کے کرائے اور دوسرے اخراجات خود اٹھاتے تھے۔
تقریباً نو ماہ اور 107 سماعتوں پر محیط احتساب عدالت میں جاری اس مقدمے کا فیصلہ اس سال چھ جولائی کو آیا جب نواز شریف اپنی بیمار اہلیہ کے ساتھ مریم نواز کے ہمراہ لندن میں مقیم تھے۔عدالتی فیصلے کے مطابق نواز شریف پر یہ الزام ثابت نہ ہو سکا کہ انھوں نے دوران حکومت اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر قانونی رقم بنائی لیکن نیب قوانین کے تحت انھیں معلوم ذرائع سے زیادہ آمدن رکھنے کے جرم میں دس سال جیل ہوئی جبکہ ایک سال جیل نیب حکام سے تعاون نہ کرنے پر ہوئی۔ اس کے علاوہ ان پر
کیا سپریم کورٹ الیکشن موخر کرنے کی اجازت دے سکتی ہے؟
اسی لاکھ برطانوی پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔