طالبان کی دہشت گردی: اگست پوری دہائی کا بدترین مہینہ قرار

سیکیورٹی فورسز کے ملک بھر میں جاری ٹارگٹڈ آپریشنز کے باوجود پاکستان میں اگست 2025 میں ہونے والی دہشتگردانہ کارروائیاں گذشتہ دس برسوں کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئیں۔ اگست دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کیلئے ایک ہولناک موڑ ثابت ہوا۔ ایک ماہ کے دوران نہ صرف عسکریت پسندوں کے حملوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا بلکہ ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات اور تباہی نے پچھلی دہائی کے تمام اعداد و شمار کو پیچھے چھوڑ دیا۔ سیکیورٹی اداروں کے مطابق، یہ مہینہ فروری 2014 کے بعد سب سے زیادہ خونی اور غیر مستحکم ثابت ہوا، جس میں نہ صرف دہشتگردوں نے کھلے عام ریاستی رٹ کو چیلنج کیا ہے بلکہ عام شہریوں کو بھی شدید عدم تحفظ کا شکار کر دیا ہے۔

ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ کارروائیاں پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہیں۔ سیکیورٹی ماہرین کے مطابق افغان طالبان کی درپردہ حمایت نے تحریکِ طالبان پاکستان اور بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کو نئی طاقت اور اعتماد بخشا ہے، جس کی وجہ سے ان کی دہشتگردانہ سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فوری اور فیصلہ کن اقدامات نہ کیے گئے تو یہ شدت پسند عناصر مستقبل میں پاکستان کے لیے مزید بڑے چیلنجز کا سبب بن سکتے ہیں۔ ماہرین کے بقول اس خطرے سے نمٹنے کے لیے جہاں سیکیورٹی اداروں کو ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے خلاف مربوط اور ہدفی کارروائیاں جاری رکھنی چاہیں وہیں حکومت کو بھی افغان طالبان پر سفارتی دباؤ بڑھاتے رہنا چاہیے تاکہ افغان طالبان کو ان دہشت گرد گروہوں کی حمایت سے باز رکھا جا سکے۔

خیال رہے کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق اگست 2025 پاکستان میں 143 دہشت گرد حملوں کے ساتھ دہائی کا بدترین مہینہ ثابت ہوا ، گزشتہ مہینے میں جولائی کے مقابلے میں دہشتگردوں کے حملوں میں 74 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پی آئی سی ایس ایس کے مطابق ایک ماہ میں 143 دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں 194 افراد لقمہ اجل بنے، جن میں 73 سیکیورٹی اہلکار، 62 شہری، 58 عسکریت پسند اور ایک سرکاری حمایت یافتہ امن کمیٹی کا رکن شامل ہے، اس دوران 231 افراد زخمی ہوئے، جن میں 129 سیکیورٹی اہلکار، 92 شہری، 8 عسکریت پسند اور 2 امن کمیٹی کے رکن شامل ہیں جبکہ عسکریت پسندوں نے کم از کم 10 افراد کو اغوا بھی کیا۔ جبکہ دوسری جانب دہشتگردانہ کارروائیوں میں اضافے کے بعد ملک بھر میں سیکیورٹی فورسز نے بھی آپریشنز تیز کر دئیے ہیں، جس کے نتیجے میں کم از کم 100 عسکریت پسند ہلاک اور 31 گرفتار ہوئے، تاہم، ان کارروائیوں کے دوران 3 شہری اور ایک سیکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوا۔دریں اثنا،گزشتہ ماہ انٹیلی جنس بیورو نے اسلام آباد میں ایک اہم دہشت گرد حملے کی سازش بھی ناکام بنائی اور ایک خودکش بمبار اور اس کے سہولت کار کو گرفتار کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں دہشت گردوں کے حملوں اور سیکیورٹی آپریشنز کے نتیجے میں کم از کم 298 افراد لقمہ اجل بنے، جن میں 158 عسکریت پسند، 74 سیکیورٹی اہلکار، 65 شہری اور ایک امن کمیٹی رکن شامل ہیں، زخمی ہونے والوں کی تعداد 250 رہی، جن میں 137 سیکیورٹی اہلکار، 100 شہری، 11 عسکریت پسند اور 2 امن کمیٹی کے رکن شامل ہیں۔پی آئی سی ایس ایس کے مطابق سیکیورٹی فورسز کے شہید اور زخمی ہونے والے ارکان میں جولائی کے مقابلے میں بالترتیب 100 فیصد اور 145 فیصد اضافہ ہوا، عسکریت پسندوں کے ہلاک ہونے کی شرح 27 فیصد اور شہری اموات میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف اگست کے مہینے میں بلوچستان میں دہشت گردوں کے 28 حملے ہوئے جس کے نتیجے میں 52 افراد لقمہ اجل بنے جن میں 23 سیکیورٹی اہلکار، 21 شہری اور 8 عسکریت پسند شامل ہیں جبکہ 45 افراد زخمی ہوئے، جن میں 23 سیکیورٹی اہلکار اور 22 شہری شامل ہیں، عسکریت پسندوں نے کم از کم 5 افراد کو اغوا کیا۔ سیکیورٹی فورسز نے 50 عسکریت پسند ہلاک کیے، جو جون 2015 کے بعد سب سے زیادہ تعداد ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگست میں سب سے زیادہ دہشتگردانہ کارروائیاں قبائلی اضلاع میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔جہاں ایک ماہ میں مجموعی طور پر 51 حملے ہوئے یوں دہشتگردانہ واقعات کی شرح میں 200 فیصد اضافے سامنے آیا ہے، ان حملوں میں 74 افراد لقمہ اجل بنے، جن میں 20 سیکیورٹی اہلکار، 12 شہری، ایک امن کمیٹی رکن اور 41 عسکریت پسند شامل ہیں، جبکہ قبائلی علاقوں میں جاری سیکیورٹی آپریشنز میں 24 عسکریت پسند بھی ہلاک ہوئے، زخمیوں کی تعداد 99 تھی، جس میں 50 سیکیورٹی اہلکار، 41 شہری، 6 عسکریت پسند اور 2 امن کمیٹی کے رکن شامل ہیں۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں 55 حملوں میں 56 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 26 سیکیورٹی اہلکار، 22 شہری اور 8 عسکریت پسند شامل ہیں، زخمی ہونے والوں کی تعداد 81 تھی، جن میں 53 سیکیورٹی اہلکار اور 26 شہری شامل ہیں، سیکیورٹی فورسز نے 24 عسکریت پسند ہلاک اور 16 گرفتار کیے، مجموعی طور پر خیبرپختونخوا میں 106 حملے کیے گئے، جو گزشتہ 10 سالوں میں سب سے زیادہ ہیں۔

دوسری جانب ایک ماہ میں سندھ میں 6 حملے ہوئے، جس میں 8 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 6 شہری اور 2 سیکیورٹی اہلکارشامل ہیں، کراچی میں سیکیورٹی فورسز نے 11 مشتبہ عسکریت پسند گرفتار کیے۔پنجاب میں دو حملے ہوئے، جن میں ڈیرہ غازی خان میں کالعدم تنظیم کا حملہ اور راولپنڈی میں ایک نوجوان عالم کا قتل شامل ہے، جس میں ایک شہری اور ایک عسکریت پسند ہلاک ہوا جبکہ گلگت بلتستان کے چلاس ضلع میں ٹی ٹی پی سے منسلک عسکریت پسندوں کے حملے میں 2 سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!