احتجاج کی ناکامی نے PTI کا رہا سہا بھرم بھی کھول کر رکھ دیا

تحریک انصاف کی 5 اگست کی احتجاجی کال ناکام ہونے سے نہ صرف عمران خان کی سیاسی بارگیننگ پوزیشن کمزور ہوئی ہے بلکہ اس نے پارٹی کی رہی سہی سٹریٹ پاور کا بھرم بھی کھول کر رکھ دیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 5 اگست 2025 سے پہلے پارٹی قیادت کی جانب سے یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ 9 مئی 2923 کے واقعات کے ردعمل میں تحریک انصاف کے زیر عتاب آنے کے باوجود عمران خان اور اُن کی جماعت ایک بڑی سیاسی قوت ہیں۔ لیکن پانچ اگست کے ناکام ترین احتجاج کے بعد پارٹی کی قیادت یہ دعوی کرنے کے قابل نہیں رہی۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق ووٹر پاور اور سٹریٹ پاور دو مختلف چیزیں ہوتی ہیں۔ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ کا ووٹر آپ کی سٹریٹ پاور بھی بنے اور 5 اگست کو یہ ثابت ہو گیا۔ 9 مئی 2023 کو جو کچھ ہوا تھا اس کے بعد بھی تحریک انصاف کا ووٹر 8 فروری 2024 کو باہر نکلا اور پارٹی کو ووٹ بھی دیا لیکن 5 اگست نے ثابت کر دیا کہ اب پارٹی کی پوزیشن وہ نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتے تھی۔

اس حوالے سے بی بی سی اردو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا تھا کہ پانچ اگست کے ناکام احتجاج کا اسٹیبلشمنٹ اور حکومت دونوں کو فائدہ ہوا ہے جبکہ عمران کو سراسر نقصان ہوا ہے۔ ’اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان ناصرف نیشنل سکیورٹی رسک ہیں بلکہ ملک کی خارجہ اور معاشی پالیسی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو مضبوط سیاسی حریف بھی سمجھتی ہے جس کو پانچ اگست کے ناکام احتجاج سے بڑا سیاسی نقصان ہوا ہے۔

لیکن جیو نیوز سے وابستہ سینیئر صحافی اعزاز سید کے مطابق ’ریاست آج بھی عمران خان کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہے۔‘ اعزاز کہتے ہیں کہ ’ریاست کے لیے پی ٹی آئی بطور پارٹی کوئی خطرہ نہیں لیکن عمران خان بطور سیاسی رہنما خطرہ ضرور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران کی تحریک انصاف چاہے کوئی احتجاجی تاریخ تحریک چلانے میں ناکام ہو جائے لیکن وہ جیل میں بند ہونے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک درد سر بنے رہیں گے۔ انکے مطابق بظاہر پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپورٹر عمران خان کے علاوہ پارٹی کے کسی دوسرے لیڈر پر اعتماد نہیں کرتے۔ ماضی میں بھی بڑا جلسہ وہی ہوتا تھا جس میں عمران خان خود موجود ہوتے تھے۔ ووٹرز اور سپورٹرز کی اسی سوچ کے باعث عمران خان کی جیل میں موجودگی پی ٹی آئی اور اس کی سیاست کو بہت زیادہ متاثر کر رہی ہے۔

تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے جیل میں ہونے کے باعث تحریک انصاف اور اس کی سیاست بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کے باہمہ اختلافات کے علاوہ اپنی اپنی مجبوریاں بھی ہیں، جن کا وہ شکار ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی رہنما اور عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ کا خیال ہے کہ خان کے جیل میں ہونے کی باوجود اُن کی یا تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’عمران خان کو عوام نے گذشتہ الیکشن میں تب بھی ووٹ دیا تھا جب وہ جیل میں تھے اور آج بھی عوام اُن کے ساتھ ایسے ہی کھڑے ہیں اور وہ پسندیدہ ترین عوامی رہنما ہیں۔  اُن کا کہنا تھا کہ عام عوام تحریک انصاف کا حصہ عمران خان کی مقبولیت کو نہیں بلکہ ان کی جماعت کے نظریے کو دیکھ کر بنے تھے۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی پی ٹی آئی کو کسی طور اب اپنی جماعت کے لیے بڑا چیلنج نہیں سمجھتے اور نہ ہی وہ اس بات سے متفق ہیں کہ پی ٹی آئی نے گذشتہ الیکشن میں ن لیگ کو سیاسی نقصان پہنچایا۔ انھوں نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ پی ٹی آئی نے 2024 کے عام انتخابات میں ن لیگ کو کوئی بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ جو نتائج آئے، وہ سب کے سامنے ہیں۔ انتخابی دھاندلی سے متعلق کئی کہانیاں بیان کی جاتی رہی ہیں لیکن کوئی مستند چیز یا ثبوت آج تک سامنے نہیں لایا جا سکا۔ تاہم انکا کہنا تھا کہ 2018 کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلی کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

عرفان صدیقی کے مطابق ’جہاں تک موجودہ صورتحال کا تعلق ہے تو عمران خان اپنے جرائم پر سزائیں پا کر جیل کے اندر ہیں۔ لیکن عمران خان کے اپنے دور حکومت میں جو سیاستدان جیلوں میں رہے ہیں، اگر ان کے مقدمات کو دیکھا جائے تو وہ خان کے خلاف کیسز کہ مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھے اور اسی لیے سب لوگ بری بھی ہو گئے۔ انکا کہنا تھا کہ پانچ اگست کی احتجاجی کال ناکام ہونے سے یقیناً عمران خان اور ان کی قیادت کو ایک اور دھچکا لگا ہے کیونکہ وہ قید ہونے کے باوجود مسلسل سیاست کر رہے ہیں اور اس حوالے سے انہیں آزادی ملی ہوئی ہے۔ ایک سوال ہر انکا کہنا تھا کہ ہم عمران کو بالکل بھی سیاسی قیدی نہیں سمجھتے کیونکہ وہ ایک سزا یافتہ مجرم ہیں۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!