سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی26ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور

سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی 26ویں آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی، ترمیم کے حق میں 225 جبکہ مخالفت میں 12 ووٹ پڑے، اسپیکر کی جانب سے اعلان کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔

خیال رہے قبل ازیں قومی اسمبلی سے 26ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل مکمل کیا گیا ، جبکہ اس سے قبل آئینی ترمیم وفاقی کابینہ اور سینیٹ سے پہلے ہی منظورکی جا چکی تھی۔

پیر کو رات گئے ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت ثابت کرنے کے لیے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے تحریک پیش کی تو آئینی ترمیم پیش کرنے کے حق میں 225 ووٹ آئے، اس طرح حکومت دو تہائی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہوئی ، جس کے بعد آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کا مرحلہ شروع ہوا۔

شق وار مرحلہ میں قومی اسمبلی سےآئین کی شق نمبر1 ، 2 ، 3 ، 4 ،5 اور 6 کو اکثریتی ووٹوں کے ساتھ منظور کر لیا گیا ، ان شقوں کے حق میں 225 ارکان نے ووٹ دیا شق نمبر 1 اور 2 کی مخالفت میں 12 ووٹ سامنے آئےجب کہ 3، 4، 5 اور 6 شقوں کی مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا۔

سینیٹ کی طرح قومی اسمبلی میں بھی 2 شق کی منظوری کے دوران اپوزیشن اراکین اجلاس کا واک آؤٹ کرتے ہوئے گیلری میں چلے گئے۔

قومی اسمبلی میں 26 آئینی ترمیم کی شق نمبر 7، 8 اور 9 کو بھی اکثریتی ووٹوں کے ساتھ منظور کر لیا گیا، ان کے حق میں بھی 225 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ سامنے نہیں آیا۔

قومی اسمبلی میں 26 آئینی ترمیم کی شق نمبر 10، 11 ، 12، 13، 14، 15 شقوں کو بھی ایوان کی طرف سے منظور کر لیا گیا، ان کے حق میں بھی 225ووٹ دیے گئے جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا۔

شق نمبر 16 ، 17، 18 اور 19 کو بھی منظور کرلیا گیا، ان کے حق میں بھی 225 اراکین نے حمایت میں ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ سامنے نہیں آیا۔

قومی اسمبلی میں 26 آئینی ترمیم کی شق نمبر20 ، 21 ،22 ، 23 ، 24 اور 25 کو بھی اکثریتی ووٹوں کے ساتھ منظور کر لیا گیا، ان کے حق میں بھی 225 اراکین نے ووٹ دیے جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ سامنے نہیں آیا۔

اسی طرح شق نمبر 26، 27 کو بھی اکثریتی ووٹوں کے ساتھ منظور کر لیا گیا، ان کے حق میں بھی 225 ووٹ دیے گئے، اس طرح قومی اسمبلی نے بھی 26 ویں آئینی ترمیم کی تمام 27 شقوں کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا۔

قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام سمیت حکومتی اتحاد کے اراکین کی تعداد 219 تھی، حکومتی اتحاد کے 211 اور جے یو آئی کے 8 اراکین نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ پی ٹی آئی کی حمایت سے جیتنے والے 5 ارکان نے بھی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا جبکہ مسلم لیگ ق کے ایک رکن نے بھی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔

اس سے قبل قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی حمایت سے منتخب ہونے والے 5 ارکان چوہدری الیاس، عثمان علی، مبارک زیب، ظہور قریشی اور کھچی حکومتی بینچوں پر آ کر بیٹھ گئے تھے۔

اسی طرح ریاض فتیانہ، زین قریشی ، مقداد حسین ، اسلم گمھن بھی ‏حکومتی لابی میں موجود رہے، حکومت کو اس آئینی ترمیم کے لیے اپنے اتحادیوں کے ووٹوں کے علاوہ 5 ارکان اسمبلی کی حمایت درکار تھی۔

اتوار کی شب اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کا سینیٹ سے منظور شدہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آج ایک تاریخ سازدن ہے، جیسا کہ اس ایوان کے علم میں ہے کہ 2006 میں میثاق جمہوریت کا معاہدہ ہوا جس پر خصوصاً شہید بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور خود بانی پی ٹی آئی عمران خان کے بھی دستخط موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت کے بہت سے نکات پر عملدرآمد ہو گیا ہے، جس میں سے ایک آج 26 ویں آئینی ترمیم کے سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور ہونا بھی شامل ہے۔ میثاق جمہوریت میں سب سے اہم ایجنڈا آئینی عدالت کا قیام تھا۔

اس کے علاوہ وفاقی وزیر نے کہا کہ ترمیم کے مسودے میں سے ایک سپریم کورٹ کے آئینی بنچوں سے متعلق ہے۔

عدالتی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے خاص طور پر کسی کا نام لیے بغیر ایک سابق چیف جسٹس کا حوالہ دیا جو اکثر سوموٹو نوٹس جاری کرتے تھے۔ تارڑ نے ریمارکس دیے کہ ہماری عدالتوں کی طرف سے منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیج دیا جاتا رہا ہے۔

بل کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اندر آئینی بینچ قائم کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ججوں کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرے گا اور کمیشن کو ججز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا اختیار ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ آئینی بینچ کمیشن تشکیل دے گا اور سپریم کورٹ کی مدت 3سال تک محدود رہے گی جس میں سپریم کورٹ کے 3سینیئر ترین ججوں میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کیا جائے گا۔

ججوں کی تقرری میں مقننہ کے کردار کو بڑھانے کے لیے، اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ صوبوں میں آئینی بینچ قائم کیے جاسکتے ہیں۔ وفاقی وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ بل کا مقصد عام آدمی کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 6 اور 7 والے چیف جسٹس آئے تو سب نے دیکھا کیا ہوا۔ یہ عام شکایت ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں کچھ جج صاحبان بہت اچھا کام کرتے ہیں اور کئی صاحبان اپنی طبعیت کے مطابق کام کرتے ہیں، ایک عدالت میں 15 مقدموں کا فیصلہ ہوتا ہے تو دوسری عدالت میں ایک مقدمے کا فیصلہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو جج کام نہیں کرتا، اس کا جائزہ لیا جائے گا، اس کی رپورٹس جوڈیشل کمیشن میں آئیں گی، عوام کے ٹیکسوں سے سارا نظام چلتا ہے، جو کام نہیں کرتا وہ اب گھر جائے گا۔ خود احتسابی کا عمل ہر ادارے میں ہونا چاہیے۔ ہمارا نوجوان ٹیلنٹ سامنے آ رہا ہے اس لیے ہائیکورٹ میں تقرری میں عمر کی حد 45 سے کم کر کے 40 کر دی گئی ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ترمیم کی گئی ہے کہ سوموٹو کریں لیکن ’سوال گندم جواب چنا ‘ نہیں ہونا چاہیے، مانگنے کچھ جاتے ہیں دے کر کچھ اور بھیج دیا جاتا ہے۔

اعظم نٓذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم میں بلاول بھٹو زرداری کے کردار کی ایک بار پھر تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کردار نا قابل فراموش ہے، ہم اس پر مولانا فضل الرحمان کے بھی شکر گزار ہیں۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ قرآن کے بعد اگر کسی کتاب کو مانتے ہیں تو وہ 1973 کا وفاقی، اسلامی اور جمہوری آئین پاکستان ہے۔ ملک میں کالا سانپ افتخار چوہدری والی عدالت ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری میں ’میرا نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان کا کردار ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کا کردار تاریخ میں یاد رکھا جائے گا، میرا مولانا فضل الرحمان کے ساتھ جتنا رابطہ رہا تو یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اپنے والد کے بعد ملک میں اگر کسی کو بڑی سیاسی شخصیت مانتا ہوں تو وہ مولانا فضل الرحمان ہیں۔

انہوں نے قرآن کی آیات پڑھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اللہ جسے چاہیے عزت عطا کرتا ہے، جتنی ہم نے اپنے پارلیمان اور دستور اور آئین سازی کے عمل کی عزت رکھی ہے تو اس میں بھی کردار مولانا فضل الرحمان کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک آئین سازی کی بات ہے تو اگر میں قرآن پاک کے بعد کسی کتاب کو مانتا ہوں تو وہ ہمارا وفاقی، اسلامی اور جمہوری 1973 کا آئین پاکستان ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام کی سب سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناح نے بات کی تھی، اس کے بعد 2006 میں تمام سیاسی جماعتوں نے آئینی عدالت بنانے پر اتفاق کیا تھا اور آج ا مولانا فضل الرحمان کی تجویز پر آئینی عدالت کے بجائے آئینی بینج بنائے جا رہے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جراتمندانہ فیصلے لینے پر آج بھی جسٹس دراب پٹیل کو تاریخ میں یاد رکھا جا رہا ہے جسٹس دراب پٹیل کو کرسی کی فکر ہوتی تو پی سی او کا حلف لیتے اور چیف جسٹس بنتے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

انہی جسٹس دراب پٹیل نے انسانی حقوق کمیشن کی بنیاد رکھی اور آئینی عدالت کی تجویز دی، جس میں تمام صوبوں کی مساوی نمائندگی ہو۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کیا ہم عدالتی تاریخ کو بھول گئے، یہ وہ عدلیہ ہے جس نے ایک وزیر اعظم کو خط نہ لکھنے پر فارغ کیا اوردوسرے کو اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر فارغ کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آپ نے وزیر اعظم خود نکالے مگر قومی اسمبلی کے ارکان سے یہ اختیار لے لیا کہ وہ قائد ایوان پرعدم اعتماد کر سکیں، جب ہم جدوجہد کر کے آمر کو بھگاتے ہیں تو ان کو آئین و قانون یاد آتا ہے۔ یہ آمرانہ دور میں آئین کا تحفظ کرنے والوں کا کردار ہے۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ پاکستان کی عدالتوں کا دُنیا بھر میں مذاق بن گیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جسٹس افتخار چوہدری نے پوری 18 ویں ترمیم کو اٹھا کر پھینکنے کی دھمکی دی، اس لیے بلیک میلنگ میں آ کر 19 ویں ترمیم کرنی پڑی۔ آج ’کالا سانپ‘ افتخار محمد چوہدری والی عدالت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی بینچ میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہو گی، ہم نے آئینی ترامیم میں جلد بازی نہیں کی۔

قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے اسمبلی پہنچنے پر وزیراعظم شہباز شریف نے ان کا استقبال کیا۔ نواز شریف اسمبلی ہال میں موجود ہیں، بلاول بھٹو کے ساتھ مصافحہ کیا جبکہ دیگر ارکان نے بھی استقبال کیا۔
دوسری طرف آئینی ترمیم کے سینیٹ سے منظور ہوجانے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کے وفد کو طلب کرلیا تھا۔

خیال رہے کہ اجلاس کے آغاز پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بتایا کہ یہ اجلاس 11 بجکر 55 منٹ پر ملتوی کردیا جائے گا اور 12 بجکر 5 منٹ پر دوبارہ شروع ہوگا۔

سینیٹ سے آئینی ترمیم کی منظور کے بعد پی ٹی آئی کے سینیٹر معروف قانون دان حامد خان نے ملک گیر وکلا تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔

واضح رہے کہ وفاقی کابینہ سے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد آج ہی سینیٹ آف پاکستان نے تمام 22 شقوں کی باری باری منظوری کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا ہے۔

چیئرمین سینیٹ نے شق وار منظوری کے بعد آئینی ترمیم کے بل کی منظوری کے لیے ڈویژن کا عمل شروع کیا تو ’بل‘ کے حق میں 65 اور مخالفت میں 4 ووٹ آئے، جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے بل کی دو تہائی اکثریت سے منظوری کا اعلان کیا۔

اس سے قبل ایوان بالا نے آئینی ترامیم پر ووٹنگ کی تحریک کثرت رائے منظور کی، جس کے بعد چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے ایوان کی گیلری کو خالی کرنے اوردروازے بند کرنے کی ہدایت کی۔

آئینی ترمیم کی شق وارمنظوری کے لیے ایوان بالا(سینیٹ ) کے دروازے بند ہوتے ہی حکومت اوراپوزیشن نے اپنی اپنی گنتی شروع کردی۔ پہلے انوشہ رحمان گنتی کرتی رہیں اور کاغذ پر لکھتی رہیں، پھر محسن نقوی اوراعظم نذیر تارڑ کھڑے ہو کراپنی گنتی پوری کرتے رہے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹرعون عباس بھی گنتی کرتے رہے، انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کی حمایت کرنے والے 62 ارکان موجود ہیں، حکومتی ارکان نے کہا کہ 3 آپ کے بھی ہیں ٹوٹل 65 ہیں۔

ایوان میں موجود 4 ارکان نے ووٹ نہیں دیا، پی ٹی آئی کے علی ظفر، عون عباس، حامد رضا، ناصرعباس نے ووٹ نہیں دیا، چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ میں ان 65 میں شامل نہیں ہوں۔

ایوان میں اپوزیشن کے چاروں سینیٹرزایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کر کے چلے گئے، اس دوران شق نمبر2 اور شق نمبر3 متفقہ طور پرمنظورکر لی گئیں، شق 4 اور 5 بھی اکثریتی ووٹوں کے ساتھ منظور کر لی گئی اس کے حق میں بھی 65 ووٹ آئے، کسی نے اس کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔

Back to top button