3 ماہ تک زیر حراست رکھنے کا قانون کس مجبوری کے تحت لایا گیا؟

سکیورٹی اداروں کو کسی بھی شخص کو 90 روز تک حراست میں رکھنے کا اختیار فوجی اور سول قیادت کے درمیان برسوں سے جاری اس بحث کے نتیجے میں ملا ہے جس میں یہ راستہ تلاش کیا جا رہا تھا کہ ریاست پر لوگوں کو گمشدہ کرنے کا الزام بھی نہ لگے اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ بھی کامیابی سے ہمکنار ہو۔
فوجی اور سویلین قیادت کے مابین اصل اختلاف یہی تھا کہ آیا فوج اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو باقاعدہ یہ اختیار دیا جائے کہ وہ مشتبہ افراد کو 90 دن تک گرفتار کر کے حراست میں رکھ سکیں یا نہیں۔ یہ موضوع کئی برسوں تک سخت اور اعلیٰ سطحی مذاکرات کا محور رہا، حتیٰ کہ موجودہ آرمی چیف کے آنے سے پہلے بھی اس پر سنجیدہ بات چیت ہو چکی تھی۔ مسئلہ دراصل یہ تھا کہ فوج اور سکیورٹی ایجنسیاں دہشت گردی کے خلاف صفِ اوّل میں ہوتے ہوئے بھی کسی شخص کو گرفتار کرنے یا اس سے تفتیش کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں رکھتی تھیں، جس سے ایک خلا پیدا ہوتا اور جو لوگوں کی ناگزیر طور پرغیر سرکاری تحویل کی جانب لے جاتا تھا۔دلچسپ بات یہ تھی کہ بند کمرے کے اجلاسوں میں اکثر سیاسی جماعتیں اس پر متفق ہو جاتی تھیں، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے ردعمل کے خوف سے وہ اس قانون سازی سے ہچکچاتی تھیں۔
یہی سیاسی دباؤ اور عوامی تنازع کے اندیشے اس معاملے پر قانون سازی میں بار بار رکاوٹ بنتے رہے۔
تاہم بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے فوجی اور سویلین قیادت کو مجبور کر دیا کہ وہ اتفاق رائے سے ایک نیا قانون لائیں جس کے تحت دہشت گردی کے الزام میں گرفتار شدہ افراد کو تین ماہ تک حراست میں رکھا جا سکے۔ بالآخر انسداد دہشت گردی ایکٹ میں یہ ترمیم منظور ہو گئی ہے۔ اس ترمیم سے پہلے سول اور فوجی ادارے دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکار تو تھے لیکن ان کے پاس مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کرنے، حراست میں رکھنے اور ان سے تفتیش کرنے کا قانونی اختیار نہیں تھا۔ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کے بعد اب سول اور فوجی قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی مشتبہ دہشت گرد کو باقاعدہ گرفتار کر سکیں گے۔
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے ذریعے فیصلہ سازوں نے جبری گمشدگیوں کو قانونی شکل دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن، حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اور وکلا انسدادِ دہشت گردی قوانین میں ترمیم کے تحت دیے گئے اضافی اختیارات کو غیر آئینی قرار دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم سے سکیورٹی اداروں کو مزید طاقت ور بنا دیا گیا ہے اور اب انہیں عدالتی دائرہ کار سے بھی باہر نکال دیا گیا ہے۔
دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے سخت ترین قوانین لانا ضروری ہو گیا تھا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بلوچستان اسمبلی نے بھی صوبے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے سکیورٹی اداروں کو اختیار دیا ہے کہ مشتبہ افراد کو وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
نیا منظور کردہ ترامیمی قانون تین سال کے لیے نافذالعمل ہو گا جس کے تحت ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے افراد کو پہلے تین ماہ حراست میں رکھا جائے گا اور اگر ضرورت پڑی تو پھر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی منظوری سے مزید تین ماہ بھی حراست میں رکھا جا سکے گا۔ اس قانون کے مطابق اگر حراست کا حکم مسلح افواج یا سول مسلح افواج کی جانب سے جاری کیا جائے گا تو تفتیش مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کرے گی۔
یہ ٹیم پولیس، خفیہ ایجنسیوں، سول مسلح افواج، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے افسران پر مشتمل ہو گی۔
نئی پاکستانی ڈیجیٹل کرنسی کرپٹو کرنسیز سے کیسے مختلف ہوگی؟
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی ترمیم کے لیے تحریری وجوہ میں بتایا کہ ملکی سلامتی کو لاحق ’سنگین خطرات‘ پر مشتبہ افراد کو تحویل میں لینے کی اجازت اس لیے ضروری ہے کہ ’دہشت گردی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ناکام بنا دیا جائے۔‘ انھوں نے بتایا کہ اس ترمیمی قانون سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردی کے خلاف مزید موثر کارروائیاں کرنے کے لیے قانونی جواز ملے گا۔
