احسان فراموش افغان طالبان نے پاکستان کو صلے میں کیا دیا؟

پاکستان نے افغانستان کے لیے کیا کچھ نہیں کیا لیکن صلے میں ہمیں مذہبی انتہا ہسندی، منشیات اور کلاشنکوف کلچر کے تحفے ملے۔
معروف اینکر پرسن جاوید چوہدری اپنے ایک تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے 1980 کی دہائی میں افغانوں کے لیے اپنے سارے دروازے کھول دیے جس کے نتیجے میں 50 لاکھ افغانی پاکستان آ گئے۔ ہم نے مروت میں انھیں پورے ملک میں آباد ہونے اور کاروبار کی اجازت دے دی۔ اس کے تین نتائج نکلے‘ پہلا یہ کہ پاکستان کا کلچر بدل گیا‘ ہم لبرل لوگ تھے لیکن افغانیوں کے آنے سے مذہبی شدت پسند ہو گئے۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں کلاشنکوف کلچر سرایت گیا اور تیسرا نقصان یہ ہوا کہ منشیات کا کلچر بھی آ گیا۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ان تین علتوں نے ہماری تین نسلیں برباد کر دیں۔ کوئٹہ‘ پشاور اور کراچی کبھی پرامن اور صاف ستھرے شہر ہوتے تھے‘ لوگ چھٹیاں منانے وہاں جاتے تھے لیکن آج آپ ان کی حالت دیکھ لیں‘ یہ افغانوں کی مہربانی ہے۔
دوسرا افغان جنگ کی وجہ سے ہمارے سکولوں کا سلیبس تبدیل ہو گیا‘ پاکستان میں اسلامیات اور مطالعہ پاکستان سکولوں میں پڑھانا لازمی ہو گئے۔ ان کا سلیبس امریکا میں تیار کیا گیا تھا اور اس میں افغان طالع آزماؤں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا‘ اسلامیات میں بھی جہاد کی آیات اور احادیث شامل کی گئیں‘ مسجدوں کے اماموں کو بھی جہاد کی ترویج اور فرقہ پرستی پر لگا دیا گیا آپ آج کا پاکستان دیکھ لیں‘ تاریخ میں محمود غزنوی‘ شہاب الدین غوری اور احمد شاہ ابدالی کا کیا کردار تھا‘ یہ لوگ ہندوستان کیا لینے آتے تھے اور اسلام کے ساتھ ان کا کیا تعلق تھا؟ لیکن یہ سب ہماری نصابی کتابوں میں مسلمانوں کے ہیرو ہیں۔ ہمیں ماننا ہوگا یہ طالع آزما تھے اور یہ ہر سال ہندوستان کو لوٹنے آتے تھے لیکن ہم نے انھیں اسلامی دنیا کے عظیم ہیرو بنا دیا۔ ہماری نئی پود نے بھی یہ سب سچ تسلیم کر لیا، لہٰذا آپ آج اس جعلی تاریخ کا نتیجہ دیکھ لیں۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں امریکا نے پروپیگنڈے سے افغانوں کو یہ یقین بھی دلا دیا تھا کہ تمہیں آج تک کوئی فتح نہیں کر سکا۔ لیکن یہ سراسر جھوٹ ہے۔ افغانستان کسی بھی دور میں آزاد نہیں رہا تھا‘ افغانستان ہر دور میں کسی نہ کسی بیرونی طاقت کا مفتوح رہا اور تب تک رہا جب تک کسی دوسرے نے اس پر قبضہ نہیں کیا‘ آپ تاریخ پڑھ لیں‘ کیا یہ یونانیوں‘ منگولوں‘ ازبکوں‘ ایرانیوں‘ ترکوں‘ سکھوں‘ انگریزوں‘ روسیوں اور امریکیوں کے زیرتسلط نہیں رہے۔ حد تو یہ تھی کہ سیالکوٹ کے ایک راجہ منندر عرف ملند نے بھی انھیں فتح کر لیا تھا‘ اس کی حکومت بھی کابل تک تھی‘ یہ افغان راجہ رنجیت سنگھ کا مقابلہ بھی نہیں کر سکے تھے‘ وہ بھی 31 سال خیبر پاس پر قابض رہا اور افغانوں نے چوں تک نہیں کی۔
جاوید چوہدری کے بقول ’’افغان ناقابل تسخیر ہیں‘‘ والا چورن امریکی یونیورسٹی آف نبراسکا نے ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بیچا تھا لیکن انھوں نے اسے سچ مان کر دنیا میں اپنے واحد دوست اور محسن پاکستان پر ہی حملے شروع کر دیے۔ سوال یہ ہے کہ طالبان کون ہیں؟ یہ دراصل پاکستان میں پرورش پانے والے افغان ہیں‘ ہم نے انھیں 1980 کی دہائی میں پناہ اور تعلیم دونوں دیے‘ یہ 1994 میں بھی پاکستان کی مدد سے اقتدار میں آئے تھے اور 2021 میں بھی پاکستان ہی انھیں دوبارہ اقتدار میں لے کر آیا۔ لیکن پاکستان دونوں مرتبہ ان احسان فراموش طالبان کے ہاتھوں ذلیل ہوا۔
سینئر اینکر پرسن بتاتے ہیں کہ پاکستان نے نائین الیون حملوں کے بعد افغان طالبان کو 20 سال تک دنیا بھر سے بچا کر رکھا تھا‘ یہ کوئٹہ‘ کراچی اور راولپنڈی میں پاکستان کی پناہ میں رہے۔ پاکستان نے ہی انھیں امریکی انخلاء کے بعد کابل میں دوبارہ اقتدار دلوایا۔ لیکن آپ آج اس کا نتیجہ دیکھ لیں‘ آپ انڈیا کے چڈوں میں گھسنے والے طالبان کے وزیرخارجہ امیر متقی کی مثال ہی لے لیں۔ یہ موصوف خاندان سمیت 1980 میں پاکستان آئے۔ آج بھی کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور میں ان کی اربوں روپے کی پراپرٹی ہے‘ یہ کاروباری لوگ ہیں‘ انھوں نے پاکستان سے کھربوں روپے کمائے لیکن آج یہ بھارت میں کھڑے ہو کر آزاد کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے رہے ہیں اور پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں‘ یہ کیا ہے؟ کیا اسے محسن کشی نہیں کہا جائے گا؟
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان نام نہاد ہی سہی لیکن مسلمان ملک ہے جب کہ بھارتی بت پرست اور مشرک ہیں لیکن آج طالبان مسلمان اور محسن پاکستان کو چھوڑ کر مشرکین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہی بھارت ہے جو ماضی قریب میں افغان طالبان کو پاکستان کی پراکسی قرار دیتا تھا۔
