اختر مینگل کے قومی اسمبلی سے استعفے کے پیچھے کیا کہانی ہے؟
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراختر مینگل نے اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ سمیت ریاستی اداراوں اور پورے پارلیمانی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اچانک سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفے کا اعلان کردیا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ میں اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکا، بلوچستان کے حالات دیکھ کر مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا، میں ریاست، صدر اور وزیراعظم سمیت پورے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتا ہوں۔اختر مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے معاملے پرلوگوں کی دلچسپی نہیں، جب بھی اس مسئلے پربات کرو توبلیک آؤٹ کردیا جاتا ہے، ملک میں صرف نام کی حکومت رہ گئی ہے، اس سیاست سے بہترہے میں پکوڑے کی دکان کھول لوں، 65 ہزار ووٹرز مجھ سے ناراض ہونگے ان سے معافی مانگتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ 23 جولائی 2023 کو پی ایم ہاؤس میں ایک میٹنگ تھی، وہاں بیٹھ کر کہا کہ اگر میری سیاست کی آپ کو ضرورت نہیں تو ہم کنارہ کر لیں گے۔سردار اختر مینگل نے کہا کہ آج تک کوئی اردو بولنے والا، پشتو بولنے والا، بلوچی یا کوئی بھی مارا گیا ہے ان کی قاتل عدالتیں ہیں جو انصاف فراہم نہیں کرتیں، سب سے بڑے قاتل وہ سیاست دان ہیں جنہوں نے سیاست کو کاروبار کے لیے استعمال کیا۔ پارلیمنٹیرین نے خود کہا کہ بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے، میں کہتا ہوں بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکل نہیں رہا بلکہ نکل چکا ہے۔سردار اختر مینگل نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 75 سالوں سے آپ کو سمجھا رہے ہیں لیکن آپ کو سمجھ نہیں آرہی، بلوچستان کے حالات کی نشاندہی کئی سال پہلے کرچکا ہوں لیکن کسی کو پرواہ نہیں ہے، اس ریاست سے، اداروں سے اور سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو چکا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس ملک کے ہر ادارے کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن ہماری بات نہیں سنی گئی، ہم کہاں جائیں اور کس کا دروازہ بجائیں، آئین کے بنانے والے نا خود کو بچا سکے اور نا آئین کو بچا سکے، 4 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اختر مینگل کے پاس آجاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جب ضرورت ہوتی ہے تو محمود خان اچکزئی کو تحفظ آئین کا چیئرمین بنا دیا جاتا ہے، آج ہم یہاں کھڑے ہیں لیکن ہماری آواز ہی نہیں سنی جا رہی۔ اسمبلی میں بولنے کا حق ہی نہیں دیا جاتا، پھر ہمارا اس اسمبلی میں رہنے کا فائدہ کیا ہے، اسی لیے آج اس ایوان سے استعفے کا اعلان کرتا ہوں۔
بی این پی کے سربراہ نے اپنا استعفیٰ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرایا جہاں سیکرٹری قومی اسمبلی نے اسے وصول کیا۔
یاد رہے کہ سردار اختر مینگل نے سابق وزیر اعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم اور اتحادیوں کا ساتھ دیا اور وہ سابقہ اتحادی حکومت کا حصہ تھے۔ 2024 کے انتخابات میں این اے 261 سے کامیاب ہو کر ایوان میں پہنچے۔اس سے پہلے سردار اختر مینگل 2018 میں قومی اسمبلی کے رکن تھے اور ابتدا میں ایک معاہدے کے تحت وہ تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بنے لیکن بعد میں الگ ہو گئے تھے۔
واضح رہے کہ 1996 میں بی این پی کا قیام عامل میں لایا گیا اور محض ایک سال بعد بی بی این پی مینگل 1997 کے عام انتخابات میں نو صوبائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔پارٹی سربراہ اختر مینگل جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ نواب اکبر بگٹی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے۔لیکن تھوڑے ہی عرصے میں پارٹی میں اختلافات پیدا ہو گئے اور اختر مینگل کو بلوچستان میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات کرنے سے متعلق پارٹی سے مشاورت نہ کرنے کے الزامات کے باعث استعفیٰ دینا پڑا۔جس کے بعد نواب اسراراللہ زہری بی این پی کے مقابلے میں بی این پی عوامی بنا لی اور یوں اختر مینگل کی جماعت بی این پی مینگل کہلانے لگی۔
بی این پی مینگل نے 2002 اور 2008 کے عام انتخابات ’فوجی ڈکٹیٹر‘ پرویز مشرف کی سربراہی میں کرانے کی وجہ سے ان میں حصہ نہیں لیا تھا۔اس کے باوجود ان کی پارٹی کے تین رہنما قومی و صوبائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور پارٹی کا ایک سینیٹر بھی منتخب ہوا جنہوں نے 2006 میں اپنی نشستوں سے اس وقت استعفیٰ دے دیا، جب بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا۔2006 میں اختر مینگل کے ذاتی سیکیورٹی گارڈ نے کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر خفیہ ادارے کے اہلکار کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد اختر مینگل کو گرفتار کرلیا گیا۔پی این پی مینگل نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور کراچی جیل سے رہائی کے بعد اختر مینگل نے چار سال تک خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی اور 2013 میں وطن واپس لوٹ کر سیاست میں متحرک ہوئے۔ بعد ازاں عمران خان کے دور اقتدار میں ان کے ساتھ حکومت میں شامل رہے تاہم تھوڑے ہی عرصے بعد اختلافات کی بنیاد پر حکومتی اتحاد سے الگ ہو گئے۔ بعدازاں عمران خان کیخلاف تحریک عدم کے دوران سردار اختر مینگل نے پی ڈی ایم اتحاد کا ساتھ دیا تاہم اتحادی حکومت کے دوران بھی وہ بلوچستان بارے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے۔ تاہم عام انتخابات کے بعد وہ وزیر اعظم شہباز شریف کی پیشکش کے باوجود حکومتی اتحاد کا حصہ نہیں بنے جبکہ 3 ستمبر کو انھوں نے اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔