ہمارے دشمنوں نے پاکستان کو گرانے کے لیے کیا منصوبہ تیار کیا ہے؟

سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ آج کا پاکستان بل فائٹنگ کا رنگ بن چکا ہے اور پوری دنیا تماشائی بن کر ہمارا تماشہ دیکھ رہی  ہے۔ رنگ کے چار طرف بیٹھے تماشائی تالیاں پیٹ کر بل فائیٹرز کو داد دے ہیں جو پاکستان نامی بیل کو ادھر ادھر دوڑا رہے ہیں‘ دراصل بل فائٹنگ کی طرح پاکستان کو پہلے سرخ کپڑے کے پیچھے دوڑا دوڑا کر بھینسے کی طرح تھکایا گیا۔ جب پاکستان تھک کر ٹوٹ گیا تو اس پر تیروں اور بھالوں سے وار کیے گئے‘ اسے زخمی کیا گیا تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہ رہ پائے‘ اب پاکستان نامی بیل سٹیڈیم کے میدان کی گرم ریت پر گر چکا ہے اور بل فائیٹر آگے بڑھ کر اسکا سر کاٹنے والا ہے‘ یہ ہے پاکستان کے دشمنوں کی وہ سکیم جس پر کامیابی سے عمل ہو رہا ہے۔

اپنی تازہ تحریر میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ آپ سیاسی محاذ پر دیکھ لیجیے‘ عمران خان کبھی وزیراعظم سکیم میں شامل نہیں تھا‘ یہ فاسٹ باؤلر تھا‘ اسے سیاست میں صرف تیز گیندیں پھینکنے کے لیے لایا گیا تھا۔ اس سے صرف ایک کام لیا جا رہا تھا‘ کا۔ یہ تھا کہ یہ جنرل مشرف کی وکٹوں پر حملہ کرتا رہے‘ یہ پیپلز پارٹی کی وکٹیں اڑاتا رہے اور آخر میں یہ میاں نواز شریف کو سانس نہ لینے دے۔ آپ 2000 سے 2017 تک  عمران خان کی سیاست دیکھ لیں‘ آپ کویہ اپنا فاسٹ باؤلنگ کا کردار ٹھیک ٹھاک نبھاتا محسوس ہو گا‘ یہ کردار اسی سپرٹ کے ساتھ مزید آگے چلنا تھا لیکن یہ کھیل تب خراب ہوگیا جب جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اسے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا‘ اس سے قبل  خان کو صادق اور امین اور عالم اسلام کا عظیم مجاہد ثابت کرنے کے لیے میڈیا کمپیئن کی گئی اور نوجوانوں کو اس کے گرد جمع کر دیا گیا۔ لیکن ہوا یہ کہ خان نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ہی وکٹیں اڑا دیں۔ وہ اب بھی مسلسل یہی کام کرتا چلا جا رہا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب بل فائیٹر رنگ میں موجود ہے تو پھر دوسرے کھلاڑی فائدہ کیوں نہ اٹھاتے، چناںچہ بھینسے کے دوسرے دشمن بھی میدان میں کود پڑے اور انھوں نے بھی تیر اور بھالے چلانا شروع کر دیئے‘ آپ کے پی اور بلوچستان کے حالات دیکھ لیں۔ دنیا میں اس وقت معیشت سب سے بڑا میدان جنگ ہے‘ آپ کے پاس اگر وسائل ہیں‘ انڈسٹری‘ ایکسپورٹس اور فارن ریزروز ہیں تو آپ کام یاب ہیں، بصورت دیگر آج کی دنیا میں بھکاریوں‘ طفیلیوں اور معاشی محتاجوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں‘ پاکستان سردست معاشی طفیلی‘ محتاج اور بھکاری ہے‘ ہم چین‘ سعودی عرب اور یو اے ای کی مدد کے بغیر آئی ایم ایف کو بھی قائل نہیں کر پا رہے، اگر یہ تین ملک ہمارے خزانے میں جمع اپنی رقم واپس مانگ لیں تو آئی ایم ایف فوراً بھاگ جائے گا اور یوں ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے‘ ہمیں اس صورت حال سے صرف معاشی استحکام بچا سکتا ہے اور یہ استحکام اب صرف معدنیات اور قدرتی وسائل سے ممکن ہے‘ انڈسٹریل گروتھ‘ سکل ڈویلپمنٹ اور نیشن بلڈنگ کے لیے کم از کم تیس سال چاہییں اور ہمارے پاس اتنا وقت نہیں‘ ہم فوری طور پر زمین‘ مائینز اور منرلز بیچ کر ہی موجودہ معاشی گرداب سے نکل سکتے ہیں‘ اس حقیقت سے ہمارا ازلی دشمن بھی اچھی طرح واقف ہے۔

جاوید چوہدری کے بقول بھارت جانتا ہے ہم اگر معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے تو ہم اسے سکون سے نہیں بیٹھنے دیں گے‘ ہم پھر اس سے کشمیر بھی مانگیں گے‘ اپنے دریاؤں کا پانی بھی اور ماضی کے مظالم کا حساب بھی‘ انڈیا کا خیال ہے کہ ہم ڈان ہیں اور ڈان جب تک اپنے مسئلوں میں پھنسا رہتا ہے دوسرے تب تک اس سے محفوظ رہتے ہیں، جس دن ڈان مسائل سے آزاد ہو جائے یا اس کے دانے پورے ہو جائیں تو وہ آنکھ کھول کر دائیں بائیں دیکھتا ہے اور پھر سب کو کان پکڑا دیتا ہے، چناں چہ بھارت چاہتا ہے ہم اپنے مسئلوں سے آزاد نہ ہو سکیں‘ ہم اپنے اندرونی مسائل میں اتنے مصروف رہیں کہ ہمیں بھارت یاد آئے اور نہ کشمیر اور نہ ہی خشک دریاؤں کا پانی چناں چہ اس نے ہمیں کے پی اور بلوچستان میں الجھا رکھا ہے۔

 اب سوال یہ ہے بلوچستان اور کے پی کیوں؟ بھارت سندھ اور پنجاب میں چھیڑچھاڑ کیوں نہیں کر  رہا؟ جاوید چوہدری کے بقول اس کی دو وجوہات ہیں‘ اول پنجاب اور سندھ کے معیار تعلیم کا فرق اور دوسرا یہ دونوں صوبوں سے بہتر ہے، لہٰذا یہاں کے لوگ نسبتاً سمجھ دار ہیں‘ یہ جلد پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہوتے‘ پھر سندھ اور پنجاب میں کوالٹی آف لائف بہتر ہے‘ لوگ شہروں میں رہ رہے ہیں‘ ان کے پاس بجلی‘ سڑک‘ سکول‘ ہسپتال‘ مکان اور روزگار کے ذرایع ہیں۔ جہاں یہ تمام سہولتیں موجود ہوں وہاں بغاوت کے امکانات کم ہوتے ہیں‘ انقلاب فرانس‘ انقلاب روس اور انقلاب ایران بھی شہر کے لوگ نہیں لے کر آئے تھے‘ یہ بھی کسانوں اور مزدوروں کا کمال تھا جو دور دراز علاقوں سے دارالحکومتوں میں آئے تھے اور انھوں نے بادشاہوں سے پہلے بڑے شہروں کے امراء کو اپنا لقمہ بنایا تھا، چناںچہ پنجاب اور سندھ دشمنوں سے بچے ہوئے ہیں اور ان کا فوکس کے پی اور بلوچستان ہیں۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ اس فوکس کی بھی اب دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تعلیم اور روزگار کی کمی ہے‘ یہ علاقے تعلیم بالخصوص سکلڈ ایجوکیشن میں پیچھے ہیں اور اس وجہ سے یہاں بے روزگاری ہے۔ دوسری وجہ یہنہے کہ ان دونوں صوبوں کی زمین میں خزانے چھپے ہیں‘ بلوچستان میں سونے‘ تانبے‘ لوہے اور کوئلے اور کے پی میں گیس اور تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں ‘ یہ ذخائر چند برسوں میں ملک کو معاشی لحاظ سے قدموں پر کھڑا کر سکتے ہیں جو بھارت کے لیے قابل قبول نہیں چناں چہ اس وقت بل فائٹنگ کے، رنگ میں موجود بھینسے پر دو اطراف سے حملے ہو رہے ہیں‘ اندرونی حملے اور بیرونی حملے۔ اندرونی محاذ پر عمران خان اور ان کے خودکش نوجوان سرگرم ہیں‘ خان بے شک اس وقت مقبول ترین لیڈر ہے لیکن یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی مقبولیت کے کندھے پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے تھے‘ نتیجہ یہ نکلا کہ زیلنسکی نے یوکرین کو ملبے کا ڈھیر بنوا دیا جب کہ ٹرمپ امریکا کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو تباہ کرنے کے مشن پر نکلے ہوئے ہیں۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ایسے میں اگر عمران خان بھی مقبولیت کی وجہ سے اقتدار میں آ گیا تو یہ اس ملک کا حشر نشر کر دے گا۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے‘ ومعقن خان کے پاس ایسا ایسا گنڈا پور موجود ہے کہ آپ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔ دوسرا ہمارے بیرونی محاذ پر بھارت سرگرم عمل ہے‘ یہ نہیں چاہتا کے پی اور بلوچستان میں امن آئے کیوں کہ اگر یہاں امن قائم گیا تو پاکستان تیل بھی نکال لے گا اور سونا اور تانبا بھی، اگر ایسا ہو گیا تو پاکستان معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا لہٰذا سوچیں اگر غریب پاکستان بھارت کے لیے اتنی بڑی تھریٹ ہے تو یہ امیر ہونے کے بعد اس کے ساتھ کیا کرے گا؟۔

Back to top button