مقبولیت کےآسمان پر پہنچنے والے عاصم منیر کو کس امتحان کا سامناہے؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ بھارت کے خلاف حالیہ جنگ میں پاکستان کی بے مثال کامیابی نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی مقبولیت کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ حافظ صاحب 10 مئی 2025 سے پہلے جس مقام پر تھے اب وہ ایک اور حیثیت اختیار کر گئے ہیں جس کا اعتراف ان کے دشمن بھی کر رہے ہیں۔
بی بی سی اردو کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ دنیا میں جیتی ہوئی افواج کے سپہ سالار طاقت کو کس طرح اور کیسے استعمال کرتے ہیں اس بارے تاریخ بھری پڑی ہے، یہی وجہ ہے کہ 19 مئی 2025 کے بعد پاکستان کی سیاست، حیثیت اور افواج کی اہمیت قطعی طور پر مختلف ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آرمی چیف ایک طاقتور شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں مگر ان کا اصل امتحان بھی یہیں سے شروع ہو گا۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ چار دن کی پاک بھارت جنگ کے بعد معاشی اور سیاسی اعتبار سے مایوسی کا شکار، دہشت گردی کی ماری پاکستانی قوم ایک پرچم تلے یوں اکٹھی ہوئی کہ نیشنلزم کا کھویا ہوا خواب تعبیر کی صورت اختیار کر گیا۔ 48 گھنٹوں میں ایک ٹوٹا پھوٹا، معاشی طور پر کمزرو، سیاسی اعتبار سے تقسیم شدہ، تفریق اور بے یقینی میں مبتلا، ہر زاویے سے بٹا ہوا پاکستان کیسے دنیا میں ایک الگ شناخت لے کر ابھرا۔ ایک طویل عرصے کے بعد ہر پاکستانی وہ جذبہ محسوس کر رہا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ معاشی اور سیاسی اعتبار سے مایوسی کا شکار، دہشت گردی کی ماری قوم ایک پرچم تلے یوں اکٹھی ہوئی کہ نیشنلزم کا کھویا ہوا خواب تعبیر کی صورت اختیار کر گیا۔ ایسے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ اب اس سے اگلی منزل کیا ہوگی، فتح یاب قومیں اور رہنما جیت کی کامیابی میں شکست کے اندیشے فراموش نہیں کرتے۔
عاصمہ کا کہنا ہے کہ انڈیا کی ’جارحانہ غلطی‘ ہمارے لیے کامیابی کا باعث بنی ہے لیکن اب اسے کس طرح مستقل کامیابی میں بدلنا ہے، کیسے سیاسی اتحاد اور یگانگت کی جانب بڑھنا ہے اور کیوں کر علم اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے کی جستجو کرنی ہے اس چیلنج کو قبول کرنا ہو گا، آخر کار پاک فوج کی اس کامیابی میں اصل جادو تو ٹیکنالوجی نے ہی دکھایا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ دس مئی کے بعد کا پاکستان پہلے سے مختلف کیوں ہے؟ اس لیے کہ پاکستان نے انڈیا کو صرف دفاعی محاذ پر شکست نہیں دی بلکہ اب تک سفارتی، سیاسی اور میڈیا کے محاذ پر بھی شکست دی ہے۔ انڈیا نے پہلگام کے واقعے کے بعد اس یقین کے ساتھ پاکستان پر حملہ کیا کہ کمزور ریاست ایک ہی وار سے ڈھے جائے گی مگر یہ اس کی تاریخی غلطی ثابت ہوئی جس کا اعتراف اب دنیا کر رہی ہے۔
چار دن کی پاک بھارت جنگ کے آغاز میں ہی پاکستانی ائیر فورس نے تب فتح کے جھنڈے گاڑ دیے جب پاکستان نے انڈیا کے جدید ترین رافیل طیارے مار گرائے، لیکن اس ’جادوئی‘ کامیابی میں سب سے اہم کردار شاہینوں اور ایئر چیف کا رہا جو گذشتہ تین برسوں میں ائیر فورس کو علمی اور عقلی بنیادوں پر وہاں لے آئے ہیں جس کی مثال دنیا میں کم ملتی ہے۔ ہمارے جانباز شاہینوں کی تربیت نہ صرف جدید خطوط پر کی گئی ہے بلکہ ایئر فورس سائبر جنگ میں دنیا کی صف اول کی فورس بن چکی ہے، اس کا کریڈٹ ائیر چیف کی قائدانہ صلاحیتوں کو جاتا ہے۔
کیا جنگ میں شکست کے بعد مودی وزارت عظمی برقرار رکھ پائیں گے؟
عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ پاکستان ایئر فورس وہ سرمایہ افتخار ہے جس نے فرنٹ لائن جنگجو کا کردار ادا کیا۔ یہ سب ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہوا جو چھ اور سات اور پھر نو اور دس مئی کی رات بھارت سے چومکھی لڑائی میں پاکستان کی فتح کی صورت بنا۔ پاکستان کی بری فوج نے بھی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور بلاشبہ یہاں جنرل عاصم منیر کی شخصیت نمایاں رہی۔ عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ جہاں پاک بھارت جنگ کے دوران ساری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی تھی وہیں عمران خان نے پراسرار خاموشی اختیار کی رکھی۔ اس کے باوجود اب یہ اطلاع آ رہی ہے کہ حکومت کی جانب سے عمران کے ساتھ رابطے استوار کیے جا رہے ہیں۔ ویسے بھی 9 مئی 2023 اور 10 مئی 2025 میں بےحد فرق ہے۔ عمران خان کے ساتھ رابطے کس حد تک کامیاب ہوں گے یہ کہنا قبل از وقت ہے تاہم اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ریاست ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ تاہم ان کہنا ہے کہ عمران کی رہائی کا انحصار ان کے رویے پر ہے۔
عاصمہ شیرازی کے بقول حالیہ بحران میں شہباز شریف کا بطور وزیراعظم کردار قابل ذکر رہا ہے۔ شہباز شریف موجودہ ماحول میں جس طرح آگے بڑھے ہیں اس سے ان کی سیاسی پختگی اور کردار مستحکم ہوا ہے تاہم اب انہیں سیاسی اعتبار سے ہم آہنگی کی سوچ کیسے پیدا کرنی ہے، یہ ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ انڈین وزیراعظم مودی پاکستان پر حملے کو ’نیو نارمل‘ قرار دے رہے ہیں جو ان کی خطے میں بر تری یا علاقائی تسلط کی خواہش کا اظہار ہے، لہٰذا انڈیا کی جانب سے مشرقی محاذ پر حملے اور مغربی محاذ پر کسی وار کا خطرہ ٹلا نہیں۔ سفارتی سطح پر انڈیا کی جانب سے کل جماعتی وفد انڈیا کی کمزور حیثیت کی غمازی ہے۔ پاکستان نے مقابلے پر بلاول بھٹو کی سربراہی میں وفد تشکیل دے کر زبردست لائحہ عمل بنایا ہے۔ افغانستان کے محاذ پر مولانا فضل الرحمٰن کو آزمایا جائے تو قدرے بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اب پہلے سے کہیں زیادہ اندرونی حالات اور خاص طور پر انتہا پسندی کے حوالے سے چوکنا رہنا ہو گا۔ داد وتحسین اپنی جگہ مگر اب جنگی بنیادوں پر ریاست کو اندرونی محاذ پر لڑنا ہو گا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس قومی یکجہتی کے ماحول میں نیشنل ایکشن پلان پر بھر پور عمل کیا جائے تاکہ اندرونی محاذ پر موجود بیرونی آلہ کاروں سے نمٹا جا سکے۔