کیا جنگ میں شکست کے بعد مودی وزارت عظمی برقرار رکھ پائیں گے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کا سیاسی مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا وہ اپنی وزارت عظمی برقرار رکھ پائیں گے یا نہیں۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جنگوں کے اثرات دیرپا اور دور رس ہوتےہیں ۔ 75 سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود جنگ عظیم دوئم کے اثرات آج تک یورپ میں نظر آتے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے بھی سیاسی، سفارتی، معاشی اور دفاعی اثرات ہوں گے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند سے انڈیا کی شکست کا تاثر ابھرا تو بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کا ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہارٹ فیل ہو گیا۔ کارگل جنگ کے معاملے پر جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف کا پنگا پڑا تو میاں صاحب کو رخصت ہونا پڑا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حالیہ پاک بھارت جنگ کا تاثر یہ بنا ہے کہ وزیر اعظم مودی اپنے عزائم میں ناکام ہوئے ہیں اور پاکستان نے بھارت کو میدان جنگ میں شکست سے دوچار کیا ہے۔ اس تاثر کے بعد مودی کے سیاسی مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو چکی ہیں اور یہ سوال کیا جا رہا کہ وہ اپنا اقتدار برقرار رکھ پائیں گے یا نہیں؟۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ مودی بھارت میں 2014 سے برسر اقتدار ہیں، انہیں حکومت کرتے ہوئے مسلسل گیارہ سال ہو چکے ہیں، مودی کا پاکستان کے بارے میں مجموعی رویہ رعونت آمیز تھا،اسی وجہ سے پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن دونوں میں ان کیلئے کوئی ہمدردی نہیں پائی جاتی۔ اکثرحلقوں کی رائے میں مودی کا سیاسی زوال پاکستان کیلئے بہتر ہوگا کیونکہ مودی کی جگہ راہول گاندھی حکومت میں آئے تو وہ ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت کی سیاست کی بجائے سیکولر انڈیا کی سیاست کریں گے جو بھارت کے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کیلئے بہتر ہو گی۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 50 سال میں پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات صرف وزیراعظم منموہن سنگھ اور ملٹری ڈکتیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بہتر ہوئے تھے، وگرنہ دونوں کے مابین کوئی نہ کوئی پنگا پڑا رہتا تھا۔ ایک دوسری اور متضاد رائے یہ ہے کہ چونکہ مودی اسوقت سیاسی اور سفارتی طور پر کمزور ہو چکے ہیں لہذا پاکستان کا انکے ساتھ ڈیل کرنا آسان ہوگا۔
با خبر سفارتی ذرائع کے مطابق مودی کو پاکستان کے ساتھ جنگ میں شکست سے جو دھچکا لگا ہے وہ وقتی ہے اور وہ جلد ہی نیا اور پہلے سے سخت بیانیہ بنا کر میدان میں اتریں گے تاکہ اپنی عزت بحال کروا سکیں۔ ان ذرائع کے خیال میں حالیہ جنگ سے مودی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ مخلوط حکومت کے اتحادی قائم دائم ہیں، ویسے بھی اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کی اتنی مضبوط سیاسی پوزیشن نہیں بن سکی کہ وہ مودی جی کو اقتدار سے نکال سکیں۔ ذرائع کا خیال ہے کہ عالمی دباؤ کے تحت مودی بالآخر پاکستان کیساتھ مذاکرات پر بھی تیار ہو جائیں گے اور ان کا نتیجہ بھی نکل آئے گا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کا ڈھانچہ اور ماخذ سمجھا جائے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی دراصل انتہا پسند راشٹریہ سیوک سنگھ یا آر ایس ایس کے سیاسی ونگ کا نام ہے۔ دراصل۔ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت کی ترجمان آر ایس ایس کے چیف موہن بھگوت ہیں جو جنتا پارٹی کے نظریاتی لیڈر ہیں، بالکل اسی طرح جیسے پاکستان کی مذہبی انتہا پسند جماعتوں کا مرکزی امیر ہی ان کا نظریاتی لیڈر ہوتا ہے باقی شاخیں اس کی سربراہی میں اور کام کرتی ہیں۔ بھارتی حکومت کو اس وقت وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ چلا رہے ہیں، جس طرح مودی شروع ہی سے آر ایس ایس سے وابستہ رہے ہیں اسی طرح امیت شاہ آزادی ہند کے رہنما منشی سے متاثر ہیں۔ یاد رہے کہ منشی کا گاندھی سے اکھنڈ بھارت اور ہندوتوا پر اختلاف تھا، ایک بار وہ کانگریس سے الگ ہو گئے مگر پھر دوبارہ نہرو کابینہ کا حصہ رہے۔
پاکستان نے انڈیا سے خطے کی طاقتور فوج کا ٹائٹل کیسے چھینا؟
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ مودی اور امیت شاہ کی حکمت عملی اصل میں اس خطے پر غلبہ پا کر اکھنڈ بھارت بنانے کی ہے جو عملی طور پر نا ممکن ہے، حالیہ جنگ کے بعد ان کے رعونت آمیز رویے کو ایک بڑی شکست ہوئی ہے۔ مودی جی کا یہ دعویٰ بھی چیلنج ہو گیا ہے کہ بھارت چونکہ بہت بڑا ملک ہے لہذا وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ پاکستان کے ہاتھوں شکست سے پہلے مودی کا یہ موقف تھا کہ انڈیا کی معاشی اور بین الاقوامی طاقت اتنی ذیادہ ہے کہ وہ کشمیر کو بھی ہڑپ کر سکتا ہے، اور مسلم اور سکھ اقلیتوں کو بھی دبا کر رکھ سکتا ہے۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اصولاً حالیہ پاک بھارت جنگ میں عسکری اور سفارتی شکست کے بعد مودی کا ساؤتھ ایشیا میں بطور سب سے بڑے بدمعاش غلبے کا خواب ٹوٹ جانا چاہیے مگر عمر بھر کے نظریات کے یکدم تبدیل ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ دوسری طرف ہمیں اپنی فالٹ لائن پر بھی غور کرنا چاہیے معروف دانشو خالد احمد مرحوم کہا کرتے تھے کہ جنرل ضیاء کی وجہ سے پاکستان میں جو مذہبی انتہا پرستی بڑھی اس کے ردعمل میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو انڈیا میں مقبولیت ملی، وگرنہ آر ایس ایس ایک چھوٹا سا پریشر گروپ تھا جس کی بھارتی سیاست میں کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ جوں جوں پاکستانی سیاست میں مذہبی انتہا پسندی کا گراف بڑھا توں توں بھارت میں ہندو انتہا پسندی جنون کو پہنچتی گئی اور اب گزشتہ 11برسوں سے انتہا پسند ہندؤں کے نمائندے مودی بھارت کے وزیر اعظم بنتے آ رہے ہیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر تو خالد احمد کی تھیوری درست ہے تو پاکستان میں انتہا پسندی اور جہادی سرگرمیاں کمزور پڑنے سے بھارت میں بھی مذہبی جنون پرستی کم ہو گی۔ اس وقت بھارتی میڈیا کا ہذیانی طرز عمل دنیا بھر میں مذاق بنا ہوا ہے، ہمیں سچ اور توازن کے ساتھ مقابلہ کرتے رہنا چاہیے، اسی سے نفرتیں اور لڑائیاں ختم ہوں گی۔ بعض دوستوں کے خیال میں ہم پاکستانیوں کو اس سے کیا لگے کہ بھارت میں مودی جی اقتدار میں رہتے ہیں یا نہیں؟ انکی رائے میں ہمیں انڈیا پر فوکس کرنے کی بجائے صرف پاکستان پر فوکس کرنا چاہیے، دوستوں کی اس رائے کے باوجود ہم ایسے ہمسائے کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے جس سے ہماری بے شمار لڑائیاں ہو چکی ہیں۔ کشمیر پر ہمارا اس سے تنازع ہے اور ہمارے لاکھوں مسلمان بھائی اُس ملک کے شہری ہیں۔ پاکستان ان وجوہات کی بنا پر بھارت کی اندرونی سیاست سے ہر وقت متاثر ہوتا ہے۔ اسی طرح انڈیا بھی پاکستان میں مذہبی جذبات کی انتہا پسندی سے متاثر ہوتا ہے۔ مودی نے اپنے گیارہ سالہ اقتدار میں پاکستان کو نظر انداز کیا۔ لاتعلقی اور نظر اندازی کے عمل سے پاکستان کو چھوٹا کرکے پیش کرنے کی پالیسی اپنائی۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مودی شکست کے زخم کھا کر بھی اپنی وہی پالیسی جاری رکھیں گے یا پھر اس خطے کو پرامن بنانے کیلئے امن مذاکرات کا اغاز کریں گے، چوائس ان کی ہے وہ تاریخ میں شکست خوردہ ہندو انتہا پسند کے طور پر زندہ رہنا چاہتے ہیں یا مستقبل میں امن و خوشحالی کی نوید سنانے والے رہنما کے طور پر دنیا سے رخصت ہونا چاہتے ہیں؟ چوائس ظاہر ہے انہی کی ہوگی۔