ڈکی بھائی سے ڈیڑھ کروڑ رشوت لینے والے FIA کے 5 افسر فارغ

آن لائن جوا ایپس کی تشہیر کے الزام پر ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار کئے جانے والے معروف یوٹیوبر ڈکی بھائی سے رشوت لینے کے الزام میں اب تک نیشنل کرائم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے 5افسران معطل کئے جا چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان میں آن لائن جوا، سٹے بازی اور غیر قانونی ڈیجیٹل سرگرمیوں کے خلاف شروع کی جانے والی اب تک کی سب سے بڑی کارروائی نے ایک غیر متوقع اور سنسنی خیز موڑ اس وقت لیا جب این سی سی آئی اے میں رشوت خور نیٹ ورک آئی ایس آئی کے نشانے پر آ گیا۔ جس کے بعد اب تک نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے پانچ ڈائریکٹرز مزید تفتیش کے لئے حراست میں لیے جا چکے ہیں، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے مشہور یوٹیوبر سعد الرحمٰن المعروف ڈکی بھائی کے اہلِ خانہ سے ڈیڑھ کروڑ روپے رشوت طلب کی تھی تاکہ ان کے خلاف تحقیقات میں نرمی برتی جائے۔ ذرائع کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں وہ افسر بھی شامل ہیں جو ڈکی بھائی کے خلاف کیس کی براہِ راست تفتیشی ٹیم کا حصہ تھے۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق حساس ادارے کو آن لائن جوئے اور سٹے کی پروموشن میں ملوث یو ٹیوبرز ، ٹک ٹاکرز کے علاوہ غیر قانونی کال سینٹرز اور دیگر قسم کے جرائم میں ملوث ملزمان کو ریلیف دینے اور ان کی سرپرستی کرکے کروڑوں روپے کی ماہانہ رشوت جمع کرنے والے این سی سی آئی اے کے نیٹ ورک کے حوالے سے مسلسل رپورٹس مل رہی تھیں جس کے بعد اعلیٰ حکام کی منظوری کے بعد ایسے کرپٹ عناصر کو مختلف دفاتر سے حراست میں لئے جانے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ جس کے بعد اب تک 15سے زائد افسران اور اہلکار اٹھائے جا چکے ہیں جن سے پوچھ گچھ کے بعد 5 افسران کو باقاعدہ حراست میں لے لیا جا چکا ہے۔ سب سے زیادہ کرپٹ عناصر این سی سی آئی اے کے لاہور کے دفتر میں پائے گئے جہاں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پورا دفتر ہی غیر فعال ہو چکا ہے، بہت سے افسران یا تو زیر حراست میں ہیں یا پھر انہوں نے چھٹیاں لے لی ہیں۔ جبکہ کئی افسر بغیر بتائے ہی ڈیوٹیوں سے غائب ہوگئے ہیں۔
تحقیقاتی ذرائع کے مطابق ڈکی کیس کے مرکزی تفتیشی افسر شعیب ریاض پر الزام ہے کہ انہوں نے ڈکی کے وکیل کے ذریعے ان کی فیملی سے بھاری رقم طلب کی۔ معاملہ اْس وقت سنگین صورت اختیار کرگیا جب ملٹری انٹیلی جنس نے خفیہ نگرانی کے دوران ٹیلی فونک شواہد اور پیغامات اکٹھے کیے جن سے رشوت طلبی کے ناقابلِ تردید شواہد ملے۔ ان شواہد کی بنیاد پر ایم آئی نے اچانک چھاپہ مار کر پانچوں افسران کو حراست میں لے لیا۔ ذرائع کے مطابق، کارروائی وزیراعظم آفس کے براہِ راست احکامات پر عمل میں لائی گئی تاکہ سائبر کرائم ایجنسی کے اندر بڑھتی بدعنوانی پر قابو پایا جا سکے۔
دوسری جانب سینئر صحافی منصور علی خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈکی بھائی کیس کے تفتیشی آفیسر ایڈیشنل ڈائریکٹر شعیب ریاض نے مبینہ طور پر ڈکی بھائی کے وکیل سے رابطہ کیا اور انہیں کہا کہ ڈکی بھائی بہت مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں اور اگر آپ ان کو کوئی ریلیف دلوانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو ڈیڑھ کروڑ کی رقم دینا ہو گی۔ اس ضمن میں ڈکی بھائی کے خاندان سے رابطہ کر کے ایڈیشنل ڈائریکٹر شعیب ریاض کے فرنٹ مین کا رابطہ نمبر دیا جاتا ہے کہ تمام رقم ان کو دی جائے گی۔ اس فرنٹ مین کا تعلق فیصل آباد سے تھا جس کو ڈکی بھائی کے خاندان نے ڈیڑھ کروڑ کی رقم دی لیکن اس کے باوجود بھی ان کی مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔
منصور علی خان نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا کہ اس سارے معاملے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز بھی کہتے رہے ہیں کہ میں جو کام کر رہا ہوں اس میں ملٹری انٹیلی جنس مجھے سپورٹ کر رہی ہے اور ایم آئی کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ جس کے بعد ایم آئی نے اس معاملے کو دیکھنا شروع کیا لیکن سرفراز چوہدری کو ڈائریکٹ کچھ نہیں کہا گیا تھا۔ تاہم جب ملٹری انٹیلی جنس نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ مبینہ طور پر ایک وسیع نیٹ ورک کام کر رہا ہے جو اس طرح کے دیگر کیسز میں بھی ملوث ہے ۔ یہ پہلے کیسز پکڑتے ہیں اور اس کے بعد پیسوں کے عوض ڈیل کر لی جاتی ہے۔ اس حوالے سے کی جانے والی تحقیقات میں پہلے پنجاب کے نیشنل کرائم ایجنسی میں ہنجاب کے معاملات دیکھنے والے ڈپٹی ڈائریکٹرعثمان کا نام سامنے آیا جس کے بعد کال سینٹرز کے معاملات دیکھنے والے انسپکٹر عثمان بھی ان کارروائیوں میں ملوث پائے گئے جو حقیقت میں کال سینٹرز میں ہونے والے قومی اور بین الاقوامی فراڈز کو روکنے کے ذمہ دار تھے۔ اس حوالے سے سامنے آیا کہ یہ دونوں مل کر نہ صرف ریڈ مارتے تھے بلکہ بعد میں پیسوں کا لین دین کر کے ملزمان کو موقع پر ہی چھوڑ بھی دیتے تھے۔ منصور علی خان نے انکشاف کیا کہ اس وقت نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی یعنی این سی سی آئی اے کے 5 افسران حراست میں ہیں اور مبینہ طور ملٹری انٹیلی جنس کے پاس ہیں اور ان کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور سننے میں آ رہا ہے کہ انہوں نے اعتراف جرم کر لیا ہے کہ ہم یہ نیٹ ورک چلاتے تھے اور اس میں سرفراز چوہدری کا نام بھی سامنے آ رہا ہے۔
ذرائع کے بقول تحقیقات کے دوران ایک اور غیر متوقع موڑ اس وقت آیا جب این سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری کو اچانک ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ یہ وہی افسر تھے جنہوں نے ڈکی کیس کی بنیاد رکھی تھی اور مالیاتی شواہد اکٹھے کیے تھے۔ ان کی سربراہی میں کیس تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا اور دیگر یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز کے خلاف بھی تحقیقات کا دائرہ بڑھایا جا رہا تھا۔ تاہم ان کی اچانک تبدیلی نے تحقیقات کے تسلسل پر سوالات کھڑے کر دیئے۔ ذرائع کے مطابق، نیا ایڈیشنل ڈائریکٹر تاحال تعینات نہیں کیا گیا جس کے باعث کیس کی رفتار سست پڑ گئی ہے۔ اگر تحقیقات میں تاخیر ہوئی تو ملزمان کو عدالت میں وقتی ریلیف ملنے کا امکان بڑھ جائے گا۔ جبکہ تفتیشی تسلسل متاثر ہونے سے دفاعی وکلا عدالت میں انتظامی کمزوری کو بطور دلیل پیش کر سکتے ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے اس کیس کو مثالی انجام تک نہیں پہنچایا تو یہ تاثر مضبوط ہوگا کہ قانون صرف کمزور کے لیے ہے، طاقتور کے لیے نہیں۔ تحقیقاتی ذرائع کا کہنا ہے کہ این سی سی آئی اے نے اس کیس کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے دیگر مشہور یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور آن لائن انفلوئنسرز کے خلاف بھی تحقیقات شروع کی تھیں، جو جوئے اور غیر قانونی ایپس کی تشہیر میں ملوث پائے گئے۔ تاہم افسران کی تبدیلی اور ادارے کے اندر پیدا ہونے والی بے یقینی کے باعث اب یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ ان تحقیقات کو یا تو جان بوجھ کر سست کیا جائے گا یا دبائو کے باعث روک دیا جائے گا۔
