ڈکی بھائی سے10کروڑ رشوت لینےوالے افسران میں کون کون شامل؟

نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے اہلکاروں کی جانب سے معروف یوٹیوبر ڈکی بھائی سے 90 لاکھ روپے رشوت لینے کا سکینڈل سنگین صورت اختیار کر گیا ہے، اور مبینہ رشوت کی رقم اب 10 کروڑ روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ تحقیقات کے دوران زیرِ حراست ملزمان کے ساتھ ساتھ اس نیٹ ورک میں شامل کئی پردہ نشین شخصیات کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔ اس سنگین پیشرفت کے بعد وفاقی حکومت نے فوری کارروائی کرتے ہوئے سکینڈل میں ملوث 9 افسران کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے، جبکہ سائبر کرائم ایجنسی کے سربراہ وقار الدین سید کو عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔

اس حوالے سے سامنے آنے والی تحقیقات کے مطابق نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے افسران نے محکمے میں لوٹ مار کیلئے باقاعدہ گینگ بنا رکھا تھا جو پہلے شکار تلاش کرتے تھے پھر اس کے حوالے سے مکمل تحقیقات کی جاتی تھیں اور تمام ثبوت جمع کر کے اسے حراست میں لیا جاتا تھا تاہم اس کی گرفتاری ڈالنے سے پہلے ہی اس سے ساز باز کرکے اسے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ تاہم ڈکی بھائی کے معاملے میں 90لاکھ کی رشوت سے شروع ہونے والا معاملہ اب 10کروڑ سے تجاوز کر گیا ہے۔ زیر حراست ملزمان نے نہ صرف اعتراف جرم کر لیا ہے بلکہ دوران تفتیش یہ بھی بتایا ہے کہ کروڑوں روپے کی رقم انھوں نے اکیلے نہیں کھائی بلکہ وہ لوٹ مار کی رقم کا ایک خاص حصہ اعلیٰ افسران کو بھی دیتے رہے ہیں۔ جس کے بعد ایف آئی اے نے اس واقعہ کی تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کر دیا ہے،ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل نے 9ملزمان کیخلاف مقدمہ درج کر کے 4 کا جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کرلیا ہے جبکہ وفاقی حکومت نے سکینڈل سامنے آنے کے بعد نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے سربراہ وقار الدین سید کو ہٹا کر ان کی جگہ پاکستان پولیس سروس گریڈ 21 کے افسر سید خرم علی کو تعینات کردیا ہے۔

ڈکی بھائی سے رشوت لینے کے حوالے سے جاری تحقیقات کی ابتدائی سرکاری انکوائری رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ این سی سی آئی اے لاہور کے متعدد افسران نے یوٹیوبر سعدالرحمن کے خلاف کارروائی کے دوران رشوت وصول کی اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افسران نے ملزم کے خاندان اور دیگر زیرِ تفتیش افراد سے لاکھوں روپے بٹورے۔تحقیقات کے مطابق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض پر الزام ہے کہ انہوں نے سعدالرحمن کی اہلیہ عروب جتوئی سے اپنے فرنٹ مین کے ذریعے 60 لاکھ روپے وصول کیے تاکہ کیس میں نرمی برتی جائے۔اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض کے فرنٹ مین کو ڈکی بھائی کے دوست عثمان نے رقم دی۔ شعیب ریاض نے ملزم ڈکی بھائی کا جسمانی ریمانڈ نہ لینے اور جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے کے لیے دوبارہ 30 لاکھ روپے کی رشوت لی۔ جو 10 10 لاکھ روپے کے تین چیکس کی صورت میں ادا کئے گئے۔

اس حوالے سے سامنے آنے والے حقائق میں مبینہ رشوت کی رقم کی تقسیم کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور الزام عائد کیا گیا ہے کہ شعیب ریاض نے 50 لاکھ روپے، ڈپٹی ڈائریکٹر زوار احمد کے ایک دوست اور اپنے فرنٹ مین کار شو روم مالک کے پاس رکھوائے جبکہ پانچ لاکھ روپے مبینہ فرنٹ مین عثمان عزیز اور پانچ لاکھ روپے ڈکی بھائی کے وکیل چوہدری عثمان نے رکھے۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزم شعیب ریاض نے مزید 20 لاکھ روپے خود رکھے جبکہ بقیہ دس لاکھ روپے میں سے پانچ لاکھ اپنے فرنٹ مین کو جبکہ ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چودھری کو اس رقم سے پانچ لاکھ روپے حصہ دیا گیا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ شعیب ریاض نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈکی بھائی کے اکاؤنٹ سے 9 کروڑ روپے مالیت کے 3 لاکھ 26 ہزار 420 ڈالرز بھی بائی نینس کے ذریعے اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کئے۔

دوران انکوائری سامنے آیا کہ ملزمان نے نیشنل سائبر کرائم ایجنسی میں موجود یہ کالی بھیڑیں باقاعدہ ایک نیٹ ورک کی صورت میں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے تھے اور یہ غیرقانونی کال سنٹرز،آن لائن فراڈ کے مقدمے میں ملوث افراد سے رقم وصول کر کے نہ صرف آپس میں تقسیم کرتے تھے بلکہ اس کا کچھ حصہ اپنے افسران کو بھی بھیجتے تھے۔ این سی سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر میں تعینات افسران کو یہ رقم ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشن ہیڈ کوارٹر محمد عثمان اور ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے محمد ایاز خان کے ذریعے بھجوائی جاتی تھی۔ چودھری سرفراز اور زوار احمد ماہانہ 10 لاکھ روپے افسران بالا تک پہنچاتے تھے، تاہم اب ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے مزید تفتیش کا آغاز کردیا گیا۔

ایف آئی اے کی جانب سے جن ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے اُن میں این سی سی آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری، ڈپٹی ڈائریکٹر زوار احمد، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز شعیب ریاض اور مجتبیٰ ظفر جبکہ این سی سی آئی اے ہیڈکوارٹر میں تعینات ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشن محمد عثمان اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایاز خان شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ دو سب انسپکٹرز علی رضا اور یاسر رمضان اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض کا مبینہ فرنٹ مین عثمان عزیز بھی اس مقدمے میں نامزد ہیں۔

خیال رہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان وہی افسر ہیں جو رواں ماہ کے اوائل میں اسلام آباد سے لاپتہ ہو گئے تھے۔ محمد عثمان کی گمشدگی کے بعد ان کی اہلیہ نے پولیس سے رجوع کیا تھا اور اس وقت یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ عدالت نے گذشتہ جمعہ کو محمد عثمان کو تلاش کرنے کے لیے پولیس کو مزید ایک ہفتے کی مہلت دی تھی۔ اس معاملے کی تفتیش کرنے والی ایف آئی اے کی ٹیم کے ایک رُکن کے مطابق مقدمے کے اندراج کے بعد چھ نامزد ملزمان کو حراست میں لے لیا گیا ہے جن میں سرفراز چوہدری، زوار احمد، شعیب ریاض، مجتبیٰ ظفر، علی رضا اور یاسر رمضان شامل ہیں جبکہ تحقیقات کے بعد جلد مزید ملزمان کی گرفتاری بھی عمل میں لائی جائے گی

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!