بوگس ووٹوں سے MNA بننے والے قاسم سوری کو کون بچا رہا ہے؟

جس ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی غیر آئینی رولنگ کی وجہ سے اس وقت پورا پاکستان ایک آئینی بحران کا شکار ہے اسکی اپنی اسمبلی رکنیت بلوچستان ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبیونل نے ستمبر 2019 میں 50 ہزار سے زائد بوگس ووٹ ڈلوانے کی بنیاد پرختم کر دی تھی، 27 ستمبر 2019 کو الیکشن ٹریبونل کے جج جسٹس عبداللہ بلوچ نے فیصلہ سناتے ہوئے حلقہ این اے 265 میں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم دیا تھا، بعد ازاں الیکشن کمیشن نے قاسم سوری کو ڈی سیٹ کیے جانے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا تھا، تاہم انہیں جسٹس عمر عطا بندیال نے سٹے آرڈر دے دیا جس پر وہ آج دن تک چل رہے ہیں اور آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔

پچھلے ڈھائی سال سے جسٹس بندیال کے سٹے آرڈر پر چلنے والے سوری نے عمران کی کرسی بچانے کے لئے 3 اپریل کو 198 ممبران قومی اسمبلی کو غدار قرار دے دیا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ قاسم سوری تحریک انصاف بلوچستان کے صوبائی صدر بھی ہیں۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبیونل نے قاسم سوری کو نا اہل قراد دیتے ہوئے بتایا تھا کہ انہیں ایک لاکھ 14 ہزار ووٹ پڑے تھے جن میں سے صرف 50 ہزار درست نکلے۔ باقی میں سے کچھ مسترد جبکہ 56 ہزار کے بوگس ثابت ہوئے۔ فیصلے میں بتایا گیا تھا کہ مسترد کیے جانے والے ووٹوں میں ہزاروں ووٹ ایسے بھی ہیں جن پر ہاتھ کے انگوٹھے کی بجائے پاؤں کے انگوٹھے کے نشانات پائے گئے۔ یہ فیصلہ ایک سال تک مقدمہ چلنے کے بعد سامنے آیا تھا اور اس دوران قاسم سوری ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی بن چکے تھے۔

قاسم سوری نے بلوچستان ہائی کورٹ کے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور تین رکنی بینچ کے سربراہ، موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں فورا سٹے دے دیا، جس میں تین سال سے توسیع دی جا رہی ہے لیکن کیس کا فیصلہ نہیں کیا جا رہا۔ وجہ یہ ہے کہ اس کیس میں قاسم سوری کو بچانا نا ممکن ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے بلوچستان الیکشن ٹربیونل کے سوری مخالف فیصلے کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ جب تک الیکشن ٹریبونل کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا، تب تک متعلقہ حلقے میں ضمنی انتخاب نہ کروایا جائے۔ عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد سوری رکن اسمبلی کے ساتھ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر بھی برقرار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قاسم سوری کے وکیل نعیم بخاری نے جسٹس بندیال کو دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ نیشنل ڈیٹابیس رجسٹریشن اتھارٹی کی طرف سے 50 ہزار سے زیادہ بوگس ووٹوں سے متعلق الیکشن ٹربیونل میں جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ ان کو ڈلوانے کے ذمہ دار قاسم سوری ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ عام انتخابات میں ہونے والی بےضابطگیاں ان کے موکل سے منسوب نہیں کی جا سکتیں۔ جواب میں جسٹس بندیال نے کہا کہ تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ دیا جائے گا۔ اسکے بعد عدالت ستو پی کر سو گئی۔

یاد رہے کہ قاسم سوری کی بطور رکن قومی اسمبلی کامیابی کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما نوابزادہ لشکری رئیسانی نے چیلنج کیا تھا اور 27 ستمبر 2019 کو الیکشن ٹریبونل کے جج جسٹس عبداللہ بلوچ نے اس سلسلے میں فیصلہ سناتے ہوئے حلقہ این اے 265 میں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم دیا تھا۔

اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے قاسم سوری کو ڈی سیٹ کیے جانے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا تھا تاہم قومی اسمبلی کا اجلاس حکومتی رکن کی جانب سے کورم کی نشاندہی کے بعد غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کیے جانے کی وجہ سے نئے ڈپٹی سپیکر کا انتخاب نہیں ہو سکا تھا۔ قاسم سوری کی کامیابی کو چیلینج کرتے ہوئے لشکری رئیسانی کا موقف تھا کہ این اے 265 میں انتخاب کے دوران دھاندلی ہوئی۔ اس سلسلے میں نادرا نے ووٹوں کی بایومیٹرک رپورٹ بھی ٹربیونل میں جمع کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حلقے میں ڈالے گئے 52 ہزار ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

فیصلہ آج ہی کریں گے

مارچ 2022 کے پہلے ہفتے کچھ پارلیمنٹیرینز کے کیس سپریم کورٹ میں لگنا تھے، جن میں قاسم سوری کا کیس بھی تھا مگر چیف جسٹس نے ان کا کیس سائیڈ پر کردیا کہ اس کو بعد میں دیکھا جائے گا ۔ اب گزشتہ 4 سال سے سپریم کورٹ سے ریلیف کے مزے لینے والے سوری نے ایک ایسا آئینی بحران کھڑا کر دیا ہے جس سے نکلنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ تاہم اگر سپریم کورٹ قاسم سوری کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتی ہے تو وہ غداری کے الزام پر آرٹیکل چھ کے تحت ٹرائل کے حقدار ہوں گے۔

Who is saving Qasim Suri who became MNA from bogus votes? | video

Back to top button