پاکستان اور انڈیا کی جنگ چھڑنے کے امکانات کم کیوں ہونے لگے؟

پہلگام واقعہ کے بعد پاکستان اور بھارت میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران امریکی مداخلت کے بعد دونوں ممالک کے مابین جنگ کے بادل کسی حد تک چھٹنا شروع ہوگئے ہیں۔ تاہم یہ خدشہ تاحال موجود ہے کہ جنونی مودی سرکار کسی غلط فہمی یا خوش فہمی کی بنا پر ایسا اقدام کر بیٹھے جس میں اسے لینے کے دینے پڑ جائیں۔ انہی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کا پاکستانی اور بھارتی حکام سے رابطے کے بعد تصادم کا امکان کم ضرور ہوا ہے مگر مسلسل ناکام ہوتی ہوئی حکمت عملی کی وجہ سے بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور اس حالت میں وہ تصادم کا راستہ اختیار کرتے ہوئے کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے۔

 

خیال رہے کہ کی جانب سے پہلگام واقعہ کے بعد سے پاکستان پر الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مودی سرکار کیطرف سے پاکستان کو حملے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ایسے میں امریکی مداخلت کے بعد سے  بھارت میں پورے زور و شور سے بجتے طبل جنگ کی آواز مدھم ہو چکی ہے۔۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاک بھارت کشیدہ صورتحال اور تناؤ کے ماحول میں امریکہ کی سفارتی سرگرمی کس حد تک مؤثر ثابت ہو سکتی ہے؟کیا امریکی مداخلت کے بعد بھارت دھمکیو ں ںعروں اور الزام تراشیوں سے باز آ جائے گا اور باہمی اختلافی معاملات مذاکرات کی میز پر حل کرنے پر آمادہ ہو جائے گا؟

 

مبصرین کے مطابق امریکی مداخلت کے بعد خطے میں کشیدگی کم ہونے کی امید ہے کیونکہ بڑی طاقت کی موجودگی دونوں فریقین کو پسپائی کے لیے جواز دے دیتی ہے۔ پاکستان جانتا ہے کہ دو نیوکلیئر ریاستیں جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتیں مگر بھارتی میڈیا اور حکومت جنگی بیانیے میں الجھی ہوئی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت میں غصے کی شدت بی جے پی کی پالیسیوں اور بھارتی میڈیا کے منفی بیانیے کا نتیجہ ہے حالانکہ پاکستان نے نہ صرف پہلگام حملے کی سخت مذمت کی بلکہ حملہ آوروں کو دہشت گرد قرار دیا۔ دوسری جانب پاکستان میں ہونے والے جعفر ایکسپریس واقعے پر انڈیا میں کسی بھی سطح پر مذمت تو دور کی بات بھارتی میڈیا نے اس حملے کو بلوچستان کے ہاتھ سے نکلنے سے تشبیہہ دی۔ دونوں حملوں میں دونوں ممالک کا رویہ سب کے سامنے ہے۔ تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے بعد اب مقامی مزاحمت بڑھ رہی ہے جو قدرتی بات ہے۔ مسئلے کا حل مذاکرات اور باہمی اعتماد سازی کے فروغ میں مضمر ہے لیکن دونوں طرف اعتماد کی شدید کمی ہے کیونکہ بھارتی سیاست میں پچھلے دو دہائیوں میں انتہاپسندی کو عوامی حمایت ملی ہےجس کی وجہ سے کسی بھی بھارتی سیاستدان کیلئے پاکستان سے صلح کی بات کرنا مشکل تر ہو چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے بقول انڈیا سمجھتا ہے کہ تھوڑی بہت چھیڑچھاڑ کرنے کے بعد معاملات حل ہوجائیں گے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ چھیڑخانی کرنے کے بعد معاملات کہاں جا کر رکیں گے کوئی بھی اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔

بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ شروع کرنے سے پہلے کیسے جیت لی؟

 

مبصرین کا مزید کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے پاک بھارت حکام سے رابطوں کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی مزید بڑھنے کے امکانات کم ہیں حالانکہ دونوں ممالک کے آمنے سامنے آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کو پندرہ سو سال پرانا مسئلہ قرار دے کر اور یہ کہہ کر کہ دونوں ملکوں خود ہی مسئلہ حل کرلیں گے، دنیا کو حیران کردیا تھا کہ آخر جو جنگ رکوا سکتا ہے وہی اس قدر بے خبر اور بے پرواہ کیوں ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق درحقیقت امریکا اس لیے عظیم نہیں ہے کہ وہاں ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہیں بلکہ اس لیے عظیم ہے کہ وہاں ایک نظام ہے جو چیزوں کو غلط ہونے سے پہلے روکنے کیلیے حرکت میں آتا ہے یا اگر کسی وجہ سے غلط ہوجائیں تو انہیں سدھارنے کے لیے پوری طرح فعال ہوجاتا ہے۔اسکا واضح اظہار امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی بھارتی ہم منصب جے شنکر کو بروقت ٹیلی فون کالز سے سامنے آیا۔جس میں انہوں نے زور دیا کہ وہ کشیدگی کم کرنے اور جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرے۔امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے بھی رابطہ کیا۔ یہی بات دہرائی اور ساتھ ہی 22 اپریل کو پہلگام میں ہوئے حملے کی مذمت کی ضرورت پر زور دیا۔دونوں نے یہ عزم بھی دہرایا کہ گھناؤنے تشدد کے واقعہ میں ملوث دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہئے۔ جس پر وزیر اعظم شہباز شریف کے اتفاق کے بعد معاملات میں نہ صرف بدلاؤ آیا بلکہ دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں کمی بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

 

دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ امریکی مداخلت کے بعد پاک بھارت کشیدگی میں اضافے کے امکانات بہت کم ہیں تاہم بھارتی حکومت بوکھلاہٹ میں کوئی بھی انتشار پسندانہ قام اٹھا سکتی ہے، خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ معاملہ بات چیت سے حل ہونا چاہیے ، امریکا، روس، چین، ترکی، ایران یا کوئی بھی ملک اس تحقیقات کی ابتدا کرے ہم مکمل تعاون کریں گے۔ تاہم بھارت اس وقت تحقیقات کی پیشکش اس لیے قبول نہیں کررہا ہے کہ اسے خوف ہے کہ کہیں تحقیقات میں کچھ اور نہ نکل آئے۔ خواجہ آصف کے مطابق بات چیت کے امکان کو کسی بھی حالات میں خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا، کشیدگی جتنی بھی ہو مذاکرات کا راستہ اپنایا جاتا ہے۔ بھارت کو بھی ہوش کے ناخن لیتے ہوئے تصادم کی بجائے مذاکرات کا ارستہ اپنانا چاہیے۔

Back to top button