پاکستانی بوڑھےمیراج طیارےاب بھی انڈین ائیر فورس پر بھاری کیوں؟

بوڑھے بابا‘ کے نام سے مشہور 50 برس پرانے میراج طیارے آج بھی پاک فضائیہ کے بیڑے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن اب دفاعی حلقوں میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا یہ پچاس برس پرانے پاکستانی میراج طیارے انڈین ائیر فورس کے جدید طیاروں کا مقابلہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟
یاد رہے کہ پاکستان نے سن 65 کی جنگ کے بعد خطے کی بدلتی صورت حال کے تناظر میں فرانسیسی کمپنی ڈیسالٹ سے پہلی بار 1967 میں میراج طیاروں کا سودا کیا تھا۔ ان طیاروں نے 71 کی پاک بھارت جنگ میں حصہ لیا، یہ تنازع تو محض 13 دنوں میں ہی اختتام کو پہنچا مگر ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں میراج طیاروں کا کردار پاکستانی ماہر انجینئرز کی بدولت آج پانچ دہائیوں بعد بھی مستعدی سے جاری ہے۔
یاد رہے کہ فروری 2019 میں جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان سرحدی کشیدگی عروج پر تھی اور انڈین پائلٹس کی جانب سے پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی گئی تو اسے روکنے کےلیے پاکستانی میراج طیاروں کی مدد بھی لی گئی تھی جس کے نتیجے میں دو بھارتی طیارے گرا دیے گئے تھے اور ایک کا پائلٹ ابھی نندن پاکستان میں قیدی بن گیا تھا۔ لہذا اب پاکستانی دفاعی ماہرین کا یہ دعویٰ ہے کہ آج بھی 50 برس پرانی پاکستانی میراج طیارے انڈیا کے جدید ترین طیاروں کا مقابلہ کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ 1967 میں فرانس سے خریدے گئے میراج III ایئر کرافٹ کو 1975 کے بعد اوورہالنگ کی ضرورت پڑنے لگی تھی جس کےلیے ان طیاروں کو واپس فرانس بھیجا جانا تھا۔ اس اوور ہالنگ کے لیے کثیر زرمبادلہ خرچ ہونا تھا اور ویسے بھی 18 مہینے تک یہ جہاز ایکٹیو کامبیٹ ڈیوٹی سے باہر رہتے۔ لیکن پاک فضائیہ نے دور اندیشی اور کمال مہارت سے اس مسئلے کا ایسا دیرپا حل نکالا جو آج 5 دہائیوں بعد بھی مؤ ثر ہے۔ پاکستان نے طیاروں کی اوورہالنگ کے لیے کامرہ میں پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس قائم کر لیا۔ پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس پر کام 1974 میں شروع ہو کر 1978 میں مکمل ہوا جب 3 مئی 1978 ونگ کمانڈر سعید انور اوورہالنگ کےلیے پہلے میراج طیارے کو اڑا کر کامرہ لے کر گئے۔ بعد ازاں سعید انور 1997-99 میں کمپلیکس کے سربراہ بھی رہے۔ دسمبر 1979 میں اوورہالنگ مکمل ہونے کے بعد اس میراج نے اپنی پہلی پرواز کی اور فروری 1980 میں اسے واپس ایکٹیو کامبیٹ ڈیوٹی کےلیے ایئر فورس کے حوالے کردیا گیا۔ بعد ازاں اس طیارے کو ’بوڑھے بابا‘ کے نام سے پہچانا اور پکارا جانے لگا۔
یہ پاکستانی فضائیہ کی تاریخ کا نہایت اہم موڑ تھا جب پہلی بار ملکی سطح پر جنگی طیارے کی اوورہالنگ کرکے اسے قابلِ پرواز بنایا گیا تھا۔ اس موقع پر تقریب منعقد ہوئی جس میں تب کے صدر جنرل ضیاء الحق نے شرکت کرکے پاک فضائیہ کے افسران اور جوانوں کی کاوشوں کو سراہا تھا۔
پاکستان اور انڈیا کی جنگ چھڑنے کے امکانات کم کیوں ہونے لگے؟
اس شمولیت کے ساتھ ہی پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں قائم پہلی میراج ریبلڈ فیکٹری (ایم آر ایف) نے کام کا باقاعدہ آغاز کیا اور 1987 تک فضائیہ نے میراج کی پہلی کھیپ میں آئے 20 سے زائد طیاروں کی اوورہالنگ مکمل کر دی تھی۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں پاکستان نے مزید میراج طیارے خریدے، کچھ فرانسیسی کمپنی سے براہ راست اور کچھ آسٹریلوی فضائیہ کی ماتحت کمپنی سے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے پاس 100 سے زائد قابلِ پرواز میراج طیارے موجود ہیں جو فرانس کے بعد ان طیاروں کی کسی ملک کے پاس سب سے زیادہ تعداد ہے۔
یاد رہے کہ پاک فضائیہ اس وقت مختلف جنریشن اور ماڈلز کے میراج طیارے استعمال کر رہا ہے جس میں ففتھ ورژن اور فورتھ جنریشن میراج ایئر کرافٹ شامل ہیں۔
ایئر مارشل ریٹائرڈ شاہد لطیف کے مطابق پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس نے میراج طیاروں کی اوورہالنگ اور مینٹیننس میں اس قدر مہارت حاصل کرلی کہ بعد میں نئے طیاروں کے بجائے مختلف ملکوں سے استعمال شدہ طیارے بھی سستے داموں خرید لیے، یہ جانتے ہوئے کہ ہم تو اسے اپنی فیکٹری میں بہترین طریقے سے قابلِ پرواز بنا لیں گے۔ نہ صرف یہ کہ ان میراج طیاروں کی انجن اور اسٹرکچر اوورہالنگ کرکے انہیں فلائٹ کے قابل حالت میں رکھا جا رہا ہے بلکہ ایم آر ایف کامرہ میں انجینئرز ان پرانے ماڈل کے طیاروں کو ماڈیفائی کرکے ان میں جدید ٹیکنالوجی کا بھی اضافی کر رہے ہیں۔
ایم آر ایف میں مینٹیننس ہینگر کے سابق انچارج گروپ کیپٹن محمد فاروق کے مطابق حالیہ دور میں میراج طیاروں میں جدید ترین فضا سے فضا میں ری فیولنگ کا سسٹم انسٹال کیا گیا ہے، اس کے علاوہ دشمن اور دوست جہازوں میں تفریق کےلیے نیا ریڈار سسٹم بھی متعارف کروایا ہے۔ اس جدت کے بعد یہ پرانے ماڈل کے میراج طیارے انڈیا کے نئے دور کے طیاروں سے مقابلے کی نا صرف صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے خلاف ملکی سرحدوں کا بھرپور دفاع سرانجام دے رہے ہیں۔ ایئر مارشل ریٹائرڈ شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ فضائیہ نے اپنی مہارت اور جانفشانی سے ان طیاروں کو محو پرواز رکھا ہے پر اب انہیں آہستہ آہستہ تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس کے متبادل کے طور پر پاکستان اور چین کے تعاون سے بننے والے فائٹر جہاز جے ایف 17 ٹھنڈر کو متعارف کروایا جا رہا ہے۔
جس فیکٹری کی ابتداء میراج طیاروں کی اوورہالنگ سے شروع ہوئی تھی آج اسی کمپلیکس میں قائم فیکٹریوں میں جے ایف 17 طیارے بنائے جا رہے ہیں۔
عالمی فضائی ماہرین کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ اوورہالنگ کی فیکٹری خود قائم کرکے پاکستان نے اس مد میں کئی بلین ڈالرز کا زرمبادلہ بچایا ہے۔ نہ صرف یہ کہ کثیر زرمبادلہ کی بچت ہوئی بلکہ پاک فضائیہ کو بہت سی ٹیکنالوجی اور مہارت بھی حاصل ہوئی۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ ایوی ایشن ایکسپرٹ ایلین وارنز نے پاک فضائیہ کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’دیکھا جائے تو میراج ایک خاصا پرانا ایئر کرافٹ ہے لیکن پاکستانی پائلٹس اسے انتہائی مہارت اور پروفیشنل ایکیوریسی سے اڑا رہے ہیں۔‘