ٹرمپ نامی ایمپائر کی انگلی عمران کے لیے کھڑی کیوں نہیں ہو پا رہی؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد موصوف سے اپنی رہائی کی امیدیں وابستہ کرنے والے عمران خان ایمپائر کی جس انگلی کے کھڑے ہونے کے منتظر تھے، وہ صدارتی حلف لینے کے باوجود کھڑی نہیں ہو پائی۔ تاہم کل تک "ایبسولیوٹلی ناٹ” اور "ہم کوئی غلام ہیں؟” کے نعرے لگانے والے عمران خان کی امیدیں اب بھی برقرار ہیں۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں نہ جانے پبلک ریلیشننگ کی کمپنی چلانے والے ایک بے سروپا امریکی اہلکار، رچرڈ گرینل نے کس ترنگ میں ا ٓکر عمران کی رہائی کے لیے ٹویٹس کر ڈالے تھے جن کے بعد خان کی امیدوں کے چراغ بھی جلنے لگے تھے۔ اب وہ آس تو ٹوٹ چکی یے لیکن طاقِ آرزو میں آج بھی ’ٹرمپ‘ نامی ایک چراغ ٹمٹما رہا ہے۔ مشرف سے ٹرمپ تک، ہمیشہ کسی ایمپائر کی اُنگلی کی متلاشی پی۔ ٹی۔ آئی پر کسی بیوہ جیسی بے سروسامانی کا ایسا بے برگ و بار موسم اُس کی چھبیس سالہ زندگی میں کبھی نہ آیا تھا۔
عرفان صدیقی کے بقول تحریکِ انصاف جس بے تابی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئی تھی، اُسی تیزی کے ساتھ رُخصت ہوگئی۔ 23 دسمبر کو شروع ہونے والا سلسلۂِ مذاکرات، تین نشستوں کے بعد 23 جنوری کو ختم ہوگیا۔ بلاشبہ پی۔ٹی۔آئی کیلئے برسوں پر محیط اپنے بیانیے سے انحراف کرتے ہوئے ’’چوروں، ڈاکوئوں، لٹیروں اور ناپاک‘‘ لوگوں سے ہاتھ ملانا اور سلام دُعا کرنا کوئی آسان مرحلہ نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ وہ یہ کڑوا گھونٹ پینے پہ کیوں مجبور ہوئی؟ عمران خان نے دِل پر بھاری پتھر رکھ کر کوچۂِ رقیب میں سَر کے بل جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ یہ بات کوئی معمّہ نہیں رہی۔ مارچ 2022 میں امریکی سائفر لہرانے سے، نومبر 2024 میں اسلام آباد پر لشکر کشی کی’’ فائنل کال‘‘ تک، پونے تین برس پر محیط بے سمت مہم جُوئی کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ پی۔ٹی۔آئی مشکلات کی دلدل میں دھنستی چلی گئی اور اُسے درپیش مسائل کا جنگل گھنا ہوتا گیا۔ 24 نومبر کی ’’فائنل کال‘‘ کی شرمناک ناکامی کے بعد عمران خان نے اڈیالہ جیل سے حکم جاری کیاکہ ’’جائو، حکومت سے مذاکرات کرکے کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرو۔‘‘ لیکن پی۔ٹی۔آئی راہنمائوں میں سے کسی نے موصوف سے یہ نہ کہا کہ ’’سَر! اِس سے تو ہمارا چار صدی پر محیط بیانیہ فنا ہوجائے گا۔ ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔‘‘
اڈیالہ جیل سے جاری ہونے والے اعلان کے مطابق ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل پاگئی۔ کمیٹی نے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے پے درپے رابطے کئے۔ا سپیکر نے وزیراعظم سے بات کی۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں پر مشتمل 10 رُکنی کمیٹی تشکیل پا گئی۔ پی۔ ٹی۔ آئی نے صرف صاحبزادہ حامد رضا اور علامہ ناصر عباس کو اپنی کمیٹی کی زینت بنایا ۔اپوزیشن کی دیگر تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ یہ وہی جماعتیں ہیں ، پی۔ٹی۔آئی جن کی دہلیز پر کھڑی ’’کوئی ہے؟‘‘ کی آوازیں لگا رہی ہے۔ مذاکرات کی پہلی نشست 23 دسمبر کو ہوئی جس میں طے پایا کہ پی۔ ٹی۔ آئی اپنے تحریری مطالبات اگلی نشست میں پیش کر دیگی۔ 2 جنوری کو ہونیوالی دوسری نشست میں یہ وعدہ وفا نہ ہوا۔ 16 جنوری کو، تیسری نشست میں فردِ مطالبات حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھی گئی۔ طے پایا کہ سات ایّامِ میں ’’چارٹر آف ڈیمانڈز ‘‘کا باضابطہ تحریری جواب دیا جائے گا۔
حکومتی کمیٹی نے سنجیدگی سے کام شروع کیا۔ تین اجلاس کیے۔ وکلاء سے مشاورت کی ۔ اپنے موقف کے خد و خال تراشے۔ ’سات ایام کار‘ میں ابھی پانچ دن باقی تھے کہ 23 جنوری کو اڈیالہ جیل کے پھاٹک سے باہر آتے ہوئے قائم مقام چیئرمین پی۔ ٹی۔ آئی بیرسٹر علی گوہر نے فرمانِ جاری کر دیا کہ ’’بانی نے مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔‘‘ کسی مجبوری کے سبب مذاکراتی میز پر آ بیٹھنے کے باوجود عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک جاری رکھی ۔اُن کی بہن علیمہ خان تواتر کے ساتھ یہ پیغام دہراتی اور سمندر پار پاکستانیوں کو اپنی رقوم پاکستان نہ بھیجنے پر اُکساتی رہیں۔ عمران خان کا’ ایکس ‘اکاؤنٹ بدستور بارود پاشی کرتا رہا۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم کو منہ بھر کے گالی دی۔
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ اکتیس روزہ مذاکرات کے دوران عمران کی جانب سے زہر ناک ٹویٹس کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ حکومتی کمیٹی ایک بار بھی کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائی ۔صرف اس لیے کہ کوئی بات پی۔ ٹی۔ آئی کی نازک مزاجی پر گراں نہ گزرے اور اس جمہوری مشق کو کوئی نقصان نہ پہنچے لیکن پی۔ ٹی۔ آئی پادَرر کاب ہی رہی۔ سو بانی کا حکم آتے ہی اِس برق رفتاری کے ساتھ مذاکراتی کمرے سے نکلی جیسے اُس کا دم گھٹنے لگا ہو۔ اب جب کہ’’ سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے،‘‘ کوئی کمیٹی رہے نہ رہے، کھیل ختم ہو چکا ہے۔ پی۔ ٹی۔ آئی مکالمے، مباحثے، مذاکرے اور افہام و تفہیم کی بجائے الجہاد ،الجہاد، مارو یا مر جاؤ، آتشیں اسلحہ ،غلیلوں، کیلوں والے ڈنڈوں اور پٹرول بموں والے’’ ہوم گراؤنڈ‘‘ کی طرف واپس جا رہی ہے۔’ پانی پت‘ کے تمام معرکوں میں ناکام رہنے والے علی امین گنڈاپور سے ’’عَلَمِ جہاد‘‘ چھین کر جنید اکبر کے حوالے کر دیا گیا ہے جنہوں نے ’’ہومیوپیتھک ‘‘حکمت کار کو مسترد کرتے ہوئے اپنے جنگی منشور کا اعلان کر دیا ہے۔
عرفان صدیقی کے بقول یوں لگتا ہے جیسے اکتیس روزہ مذاکراتی وقفہ صرف نئی صف بندی کے لیے تھا یعنی ’’آگے چلیں گے دَم لے کر۔ ‘‘پی۔ ٹی۔ آئی دو خصوصیات کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ پہلی خصوصیت یہ کہ وہ دنیا بھر کی روایتی سیاسی جماعتوں کے برعکس مذاکرات ،مکالمے اور سنجیدہ گفتاری کیلئے بنی ہی نہیں۔ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھتی ہے تو بھی یوں جیسے انگاروں پر لوٹ رہی ہو۔ لگی بندھی مذاکراتی کمرے میں آتی ہے تو اِس قدر ہراساں جیسے کسی عقوبت خانے میں دھکیل دی گئی ہو۔ ہنگامہ وپیکار اور فتنہ وفساد اُس کا خصوصی ہُنر ہے۔ وہ اسی جولاں گاہ میں آسودہ رہتی ہے چاہے نتائج کچھ بھی ہوں۔ پی۔ ٹی۔ آئی کی دوسری منفرد خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے’’ نظریے‘‘ یا’’ عوامی مقبولیت‘‘ کے بجائے تکمیلِ آرزو کیلئے ہمیشہ کسی فوجی شخصیت کی طرف دیکھتی اور اُسکے دست ِشفقت کی محتاج رہتی ہے۔ یہ کہانی 26 برس قبل پرویز مشرف سے شروع ہوئی۔شجا ع پاشا،ظہیر الاسلام، فیض حمید، قمر جاوید باجوہ، آصف سعید کھوسہ اور ثاقب نثار سے ہوتی ہوئی عمر عطا بندیال پہ آ ٹھہری۔ وردی اُتر جانے کے باوجود فیض حمید کا فیضان جاری رہا یہاں تک کہ وہ خود اپنے کارہائے نمایاں کے آہنی جال میں پھنس گئے۔
بقول عرفان صدیقی، اس کے بعد اپنے پیروکاروں کے لیے یہ سراب تخلیق کیا گیا کہ جلد جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بننے جا رہے ہیں۔ اُس کے فوراً بعد یہ’’ جعلی نظام‘‘ تحلیل ہو جائے گا اور عمران خان اڈیالہ جیل سے براہ راست وزیراعظم ہاؤس آ بیٹھیں گے۔ لیکن جب ایسا بھی نہ ہو پایا تو صدر ٹرمپ سے ساری امیدیں وابستہ کر لی گئیں جو اب تک پوری نہیں ہو پائیں۔