جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل شیطان کی آنت جیسا لمبا کیوں ہو گیا؟

بدنام زمانہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کیخلاف کورٹ مارشل کی کارروائی تقریبا ایک برس گزرنے کے باوجود شیطان کی آنت جیسے لمبی ہوتی چلی جا رہی ہے جس کی کوئی خاص توجہیہ سامنے نہیں آ پائی۔ عموما فوج میں کورٹ مارشل کا شکار ہونے والوں کیخلاف فیصلہ چند ہفتوں یا چند مہینوں میں آ جاتا ہے لیکن فیض حمید کے کیس میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
راولپنڈی میں انتہائی باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ فیض حمید کے خلاف فوجی عدالت کی کارروائی لمبی ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے خلاف ایک نہیں بلکہ بیک وقت کئی کیسز چل رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہےکہ اپنے زمانے کے فرعون جنرل فیض حمید کو 12 اگست 2024 کو گرفتار تو ٹاپ سٹی سکینڈل میں کیا گیا تھا لیکن دوران تفتیش کئی ایسے سنگین کیسز بھی سامنے آئے جن کی بنیاد پر ان کے خلاف مزید مقدمات بھی بنا دیے گئے۔ جنرل فیض کو 9 مئی 2023 کو ایک فوجی بغاوت کی کوشش کا ماسٹر مائنڈ ہونے کے الزام کا بھی سامنا ہے جب عمران کی گرفتاری کے خلاف ان کے ایک ویڈیو پیغام کے بعد پاکستان بھر میں فوجی تنصیبات پر حملے کیے گے تھے۔ اس سازش کے الزام میں 200 سے زائد فوجی افسران کے خلاف کاروائیاں پہلے ہی کی جا چکی ہیں۔
عسکری ذرائع کے مطابق جنرل فیض حمید پر تقریبا تمام کیسز میں فرد جرم عائد ہونے کے بعد انکوائریاں جاری ہیں اور معاملات آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں جس کے بعد انہیں سخت ترین سزائیں سنائے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ فیض حمید پر لگنے والے الزامات میں بغاوت کی سازش کے علاوہ ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرنے کا الزام بھی شامل ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الحال جنرل فیض حمید کا فوجی ٹرائل گزشتہ تین ہفتوں سے معطل ہے۔ ان کے وکیل میاں علی اشفاق کے مطابق کورٹ مارشل کی رکی ہوئی اب کارروائی کسی بھی وقت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تین ہفتوں سے کیس کی سماعت معطل ہے، لیکن امکان ہے کہ کارروائی جلد دوبارہ شروع ہو جائے گی۔ بیرسٹر علی اشفاق جنرل (ر) فیض حمید کی قانونی ٹیم کی سربراہی کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے فیض حمید کے کورٹ مارشل کی جلد تکمیل کیلئے باضابطہ درخواست دی ہے کیونکہ آئندہ ماہ انہیں اپنے بچوں کے ساتھ گرمی کی چھٹیاں منانے بیرون ملک جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے اہل خانہ کیساتھ بیرون ملک چھٹیاں طے ہیں، لہٰذا میں نے درخواست کی ہے کہ کیس کی کارروائی جلد مکمل کی جائے اور فیصلہ سنایا جائے۔ انہوں نے کسی حتمی ٹائم لائن پر تبصرے سے گریز کیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب تک کورٹ مارشل کی کارروائی کا تقریباً 75 فیصد حصہ مکمل ہو چکا ہے۔
یاد رہے کہ فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں رازداری سے جاری ہے، اس کارروائی کی تفصیلات عوام کے روبرو نہیں لائی جا رہی جیسا کہ عموما کورٹ مارشل میں ہوتا ہے۔ تاہم بیرسٹر علی اشفاق کے تازہ بیانات سے اس ہائی پروفائل مقدمے کے حالیہ مرحلے کی کچھ جھلک ضرور ملتی ہے، جس میں عوامی دلچسپی غیرمعمولی ہے۔
گزشتہ سال پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بتایا تھا کہ جنرل (ر) فیض حمید پر متعدد الزامات کے تحت باقاعدہ مقدمات قائم کیے گئے ہیں جن میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی شامل ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ان خلاف ورزیوں سے ریاست کے مفادات اور سلامتی کو نقصان پہنچا۔ انہیں جن الزامات کا سامنا ہے ان میں اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور کسی کو نقصان پہنچانا بھی شامل ہیں۔ اسکے علاوہ فیض حمید کے 9؍ مئی 2023ء کے واقعات میں ملوث ہونے کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، ان کا کردار ایسے اقدامات میں دیکھا جا رہا ہے جو مخصوص سیاسی مفادات کے ساتھ گٹھ جوڑ میں ریاستی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش تھے۔
تاہم جنرل (ر) فیض حمید نے خود پر عائد کردہ تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ انکے وکیل کے مطابق، فیض کی ریٹائرمنٹ کے بعد اُنکے سیاسی شخصیات سے رابطے سماجی تھے اور وہ کسی سازش کا حصہ نہیں تھے۔ تاہم عسکری ذرائع کا کہنا ہےکہ الیکشن 2018 میں دھاندلی کے ذریعے عمران خان کو وزیراعظم بنوا کر انکی حکومت چلانے والے فیض حمید نے ان کے اقتدار سے نکلنے کے بعد تحریک انصاف کے چیف منصوبہ ساز کی حیثیت سے 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فیض حمید کو انہیں آئندہ چند ہفتوں میں سزائے موت سنائے یا عمر قید جیسی کڑی سزائیں سنانے کا امکان ظاہر ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فیض حمید کو ٹاپ سٹی سکینڈل میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں تفتیش کے دوران انہوں نے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔