عمران نےگنڈاپورسےمشن افغانستان کی سربراہی کیوں چھینی؟

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اپنی باغیانہ روش کی وجہ سے عمران خان کی گڈ بک سے نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی قریب میں پارٹی کی صدرات واپس لینے کے فیصلے کے بعد اب بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ’’مشن افغانستان‘‘ جیسا حساس اور اہم معاملہ بھی گنڈا پور سے واپس لے کر محمود خان اچکزئی کے سپرد کر دیا ہے، مبصرین کے مطابق عمران خان کی مسلسل حکم عدولی اور بارہا طلبی کے باوجود اڈیالہ جیل نہ جانا گنڈاپور کے لیے مہنگا ثابت ہو رہا ہے۔ تاہم عمران خان کے افغانستان مشن کی سربراہی اچکزئی کو سونپنے کے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ گنڈا پور نہ صرف عمران خان کی گڈ بک سے نکل چکے ہیں بلکہ ان کے اثر و رسوخ کو بھی مرحلہ وار کم کیا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ علی امین گنڈا پور عمران خان کے قریبی اور پرجوش ساتھی سمجھے جاتے رہے ہیں۔ اسی لئے عمران خان نے قریبی ساتھیوں کی مخالفت کے باوجود خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی قیادت گنڈاپور کو سونپی اور انھیں وزیر اعلیٰ بنوایا تھا۔ تاہم گنڈاپور کی جانب سے عمران خان کی واضح ہدایات کی خلاف ورزی، حکم عدولی اور طلبی کے باوجود جیل جانے سے انکار نے بانی پی ٹی آئی کو ناراض کر دیا ہے۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اگر اس وقت گنڈاپور کو سبق نہ سکھایا گیا تو پارٹی میں بڑی بغاوت ہو سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے گنڈا پور کو بتدریج مرکزی فیصلوں سے الگ کرتے ہوئے انھیں کھڈے لائن لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سے افغانستان مشن کی سربراہی واپس لے کر اچکزئی کے سپرد کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں وفاقی حکومت کو معاملہ کرنے کے آئینی اختیار کو لگا تار چیلنج کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ پیشرفت کے مطابق بانی تحریک انصاف عمران خان نے "مشن افغانستان” گنڈاپور سے لے کر بلوچستان کے قوم پرست رہنما اوراپنے اپوزیشن لیڈر کے امیدوار محمود خان اچکزئی کے سپرد کردیا ہے جبکہ اڈیالہ جیل سے وزیر اعلیٰ گنڈاپور کیلئے جاری حکمنامے میں کہا کہ وہ اپنے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو لیکر پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کی سرکردگی میں افغانستان جائیں تاکہ افغانستان مقامی قبائل اور حکومت ایک ساتھ بیٹھیں تاکہ صوبے میں قیام امن کی راہ ہموار کی جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان نے یہ دعویٰ بھی کر دیا ہے کہ  افغانوں کواپنے ملک بھیجنے کے باوجود ملک میں دہشت گردی ختم نہیں ہوگی، دوسری جانب افغان مشن کی سربراہی واپس لینے پر علی امین گنڈاپور سخت برہم دکھائی دیتے ہیں۔ گنڈاپور نے بعض پارٹی رہنماؤں کو ہدف تنقید بنانے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اپنے سوشل میڈیا کے خلاف کھلی جنگ چھیڑ دی ہے گنڈاپور کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کی ٹک ٹک سے عمران خان کی رہائی ممکن نہیں۔ کل کے بچے سمجھتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا پر وی لاگ اور جعلی اکاؤنٹ بناکر آزادی کی جنگ جیت سکتے ہیں انھیں سمجھ لینا چاہیے کہ سوشل میڈیا کے ٹک ٹاک سے انقلاب نہیں آتے ایسا ہوتا تو بانی تحریک جیل میں نہ ہوتے۔

ماضی کے دوست افغان طالبان احسان فراموش کیوں نکلے؟

تاہم دوسری جانب عمران خان کی جانب سے ’’مشن افغانستان‘‘ گنڈاپور سے اچکزئی کو منتقل کرنے کے فیصلے سے واضح ہوتا ہے کہ عمران خان اب ان پر مزید بھروسہ کرنے کے بجائے متبادل قیادت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق گنڈاپور کی فراغت محض ایک فرد کی سیاسی تنزلی نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اندرونی بحران کی کھلی علامت ہے۔ ایک طرف عمران خان اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے سخت اقدامات اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں تاکہ یہ تاثر قائم رہے کہ وہ اب بھی پارٹی کے واحد فیصلہ ساز ہیں اور اب بھی حتمی اتھارٹی انھی کے پاس ہے۔ دوسری طرف عمران خان کا یہ رویہ پارٹی میں مزید دھڑے بندی کو ہوا دے سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، ’’مشن افغانستان‘‘ کو اچکزئی کے سپرد کرنا دراصل عمران خان کی مجبوری ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ صوبائی قیادت اب مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں نہیں رہی۔ تاہم کچھ تجزیہ کاروں نے عمران خان کے اس فیصلے کو ’’ریسک فیکٹر‘‘ قرار دے دیا ہے۔ ان کے مطابق افغانستان جیسے حساس مسئلے کو صوبائی دائرہ اختیار میں ڈالنے سے نہ صرف وفاق کے ساتھ ٹکراؤ بڑھے گا بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی تضادات پیدا ہوں گے۔ دوسری جانب، گنڈاپور جیسے رہنما کو سائیڈ لائن کرنے سے پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات مزید شدید ہو سکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق علی امین گنڈاپور کی فراغت اور ’’مشن افغانستان‘‘ کا محمود اچکزئی کو سپرد ہونا بظاہر ایک حکمتِ عملی دکھائی دیتا ہے مگر درحقیقت یہ فیصلہ پی ٹی آئی کے اندر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد اور خودپسند عمران خان کے سخت گیر رویے کا عکاس ہے۔ تاہم اس ساری صورتحال میں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا عمران خان کی یہ پالیسی انہیں وقتی طاقت فراہم کرے گی یا پارٹی کو مزید انتشار کی طرف دھکیل دے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ پاکستان کی داخلی سیاست کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔

Back to top button