ماضی کے دوست افغان طالبان احسان فراموش کیوں نکلے؟

 

 

 

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ہے ہم نے جن افغانوں کو اپنے بھائی قرار دے کر کئی دہائیوں تک اپنے گھروں اور شہروں میں پناہ دی اور انکی میزبانی کی وہ بالآخر احسان فراموش نکلے۔ اب وہی افغان، طالبانی دہشت گردوں کیساتھ مل کر محسن کش بن چکے ہیں اور ہمارے ہی ملک میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔

 

عمار مسعود اپنے تجزیے میں کہتے ہیں کہ افغان مہاجرین ایک سوغات کی صورت میں ہمیں جنرل ضیاء الحق کے مارشل دور میں میسر آئے۔  جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت برطرف کر کے ضیاءالحق برسر اقتدار آیا تو اس نے نہ صرف شریعت نافذ کرنے کا اعلان کر دیا بلکہ روس کے خلاف جنگ میں پاکستان کو افغان مجاہدین کے ساتھ کھڑا کر دیا۔ اس طرح افغان جہاد کا غلغلہ بلند ہوا۔ افغان، پاکستان بھائی بھائی کا نعرہ لگا۔ انصار اور مہاجرین کی مثالیں بیان کی گئیں۔ ضیا الحق  کی آمرانہ حکومت 11 برا تک قائم رہی۔ اس زمانے میں کیا کیا ہوا۔ ملک بدل گیا، سماج بدل گیا، روس تباہ ہو گیا، امریکا اکلوتی سپر پاور رہ گیا۔ اس زمانے میں افغانستان  کو پانچواں صوبہ بنانا ہمارا خواب تھا۔ آج دیکھیں تو وہ خواب ایک بھیانک تعبیر بن چکا ہے۔ آج افغان طالبان احسان فراموشی کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے پاکستان میں ہی دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔

 

عمار مسعود کہتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد سے اس ملک میں بہت سارے نعرے لگائے جا چکے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں نعرے لگانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں ہر دور کے اپنے تقاضے اور  نعرے تھے۔ لیکن کوئی نعرہ تاریخ کی بساط پر زندہ رہتا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ وقت کرتا ہے۔ کسی نعرے کی قبولیت کو پرکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دیکھا جائے نعرہ کون لگا رہا ہے؟ کب لگا رہا ہے؟ کیسے لگا رہا ہے؟ کس وقت لگا رہا ہے؟ اور کس زمانے میں لگا رہا ہے؟ یہی عناصر فیصلہ کرتے ہیں کہ نعرہ زندہ رہا یا ردی کی ٹوکری کی نذرہو گیا۔

 

عمار مسعود کہتے ہیں کہ اپنے ہاں کچھ نعرے بے وقت لگے جس کی وجہ سے وہ وقت کے ساتھ اپنے معنی کھو بیٹھے۔  جیسے ایوب خان کے دور میں ’سبز انقلاب‘ کا نعرہ لگا حالانکہ وہ زمانہ ’سرخ انقلاب‘ کا تھا۔اس وجہ سے ہمارا ’سبز انقلاب‘ اتنا معروف نہ ہو سکا ۔ ابھی ’سبز انقلاب‘ کی کامیابی کا جشن منایا ہی جا رہا تھا کہ ہمیں ’سرخ انقلاب‘ درپیش ہوا ۔ اس کے بعد نہ سبز انقلاب کا نعرہ رہا نہ نعرہ لگانے والے کا اقتدار۔ انکا کہنا ہے کہ کچھ نعرے صرف جذباتی ہوتے ہیں۔ جیسے بھٹو صاحب نے روٹی، کپڑے اور مکان  کا نعرہ لگایا۔ وہ خود وڈیرے تھے۔ وسیع جائیدادوں کے مالک تھے مگر غریب کے حق میں نعرہ لگانے سے نہ چوکتے تھے۔ انہوں نے سرخ انقلاب کا بھی خیر مقدم کیا اور سبز انقلاب کو بھی زندہ رکھا۔

 

اسلام ہمارا دین اور سوشلزم ہمارا نظام کا نعرہ بھی اس دور میں تخلیق ہوا۔ مزدور یونینز اور طلبا یونینز بھی اس زمانے میں نعرے لگاتی پھرتی تھیں۔ پھر انقلاب میں بتدریج سرخی کم اور ہرا رنگ زیادہ نمایاں رہنے لگا۔ سرخ انقلاب کے نعرے بھٹو صاحب کے ساتھ ہی پھانسی پر جھول گئے۔  غریب کو نہ کبھی روٹی میسر آئی نہ تن پر کپڑا نصیب ہوا نہ ان کے سر پر چھت ملی۔

 

عمار مسعود کے بقول کچھ نعرے صرف سیاسی مخاصمت میں لگے۔ ایک دور ایسا بھی آیا کہ  دو، دو مرتبہ سیاستدانوں کو سیاستدانوں کی ہی تذلیل کے نعرے لگانے پڑے۔ نواز شریف اور بے نظیر کی حکومت کو دو، دو باریاں ملیں دونوں ایک دوسرے کے خلاف خوب نعرے لگائے۔ ایک نے دوسرے کے خلاف کیسز بنوائے تو دوسرے نے کرپشن کا الزام لگایا۔ اسمبلی مچھلی بازار بن گئی۔ ایک دوسرے کے خلاف ایسے ایسے نعرے لگائے گے کہ خدا کی پناہ۔ نہ تو عورت ذات کا لحاظ رہا اور نہ ہی پنجاب کی پگ سلامت رہی۔

 

ہر دو سال کے بعد صدر مملکت کو کرپشن کے کیس نظر آتے اور اسمبلی تڑک کر کے ٹوٹ جاتی۔ اسی زمانے میں نواز شریف نے پنجاب بینک کا نعرہ لگایا۔ موٹر وے کا نعرہ لگایا۔ پیپلز پارِٹی کی حکومت میں یہ بھی نہیں ہوا وہ حکومتیں صرف نعروں تک محدود رہیں۔ اور لڑائی اس قدر بڑھی کی جنرل مشرف کو اقتدار میں آنا پڑا۔ اس کی آمد کے ساتھ ہی دو، دو باریاں لینے والوں کے سب  نفرت انگیز نعرے تاریخ میں دفن ہو گئے۔

 

عمار مسعود کہتے ہیں کہ کچھ نعرے بین الاقوامی مصلحتوں کو مدنظررکھ کر لگے۔ جنرل مشرف نے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا نعرہ اکھٹے ہی لگا دیا۔ اس نے اپنے پالتو کتوں کےساتھ  ہاتھ میں گلاس تھام کر تصویر بھی کھنچوائی۔ اس کی کوشش تھی کہ ماضی کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے اور افغان جنگ کے مضمرات کو کھرچ دیا جائے۔ اسی اثنا میں نائن الیون کا سانحہ رونما ہوگیا جس سے مشرف کے آمرانہ دور کو طوالت ملی اور ہم نے خارجہ اور داخلہ سطح پر  ایک تاریخی یوٹرن لے لیا۔ المیہ یہ ہوا کہ قوم نے اس یو ٹرن میں جنرل صاحب کا ساتھ نہیں دیا۔ قوم وہیں کھڑی رہی اور جنرل صاحب، پہلے صدر بنے پھر دوبئی روانہ ہوئے اور پھر دنیا سے چلے گئے، مگر اس دور کا کوئی نعرہ اب کسی کو یاد نہیں۔ اب نہ تو ہم روشن خیال رہے اور نہ ہی اعتدال پسند۔

 

عمار مسعود کہتے ہیں کہ پاکستان میں کچھ نعرے آئینی بھی لگے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اٹھارہوں ترمیم کا نعرہ لگایا۔ صوبوں کے حق کی بات کی۔ وسائل کی تقسیم کا نعرہ لگایا۔ وسائل بھی تقسیم ہو گئے اور صوبے بھی خود انحصار ہو گئے مگر وفاق غریب ہوگیا۔ اتنا غریب کہ اس دور میں لوڈ شیڈنگ کے سوا  کوئی نعرہ نہیں بچا۔ میاں صاحب اقتدار میں آئے تو نعرہ دوسری جانب سے لگا۔ آواز کرپشن کی آئی اور نتیجہ پاناما کی صورت میں نکلا۔ یوں میاں صاحب کا اقتدار بھی گیا اور عزت بھی۔

میاں صاحب کا کارکردگی کا نعرہ فیل ہو گیا کیونکہ عمران خان کا برسر اقتدار آنا طے بو چکا تھا۔ پھر خان صاحب نے ہر وہ نعرہ لگایا جو ان کے حق میں تھا لیکن جب بڑوں کا  لاڈ پیار ختم ہوا تو کان صاحب نے جو نعرے لگائے وہ سماعت پر بہت گراں گزرے۔  قصہ مختصر یہ کہ غلامی سے آزادی کا نعرہ لگانے والا انقلابی کپتان اپنے انقلاب سمیت آج کل  قید میں ہے اور قوم کو اسکے نعروں کی بجائے 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر ہومنے والے حملے ہی یاد رہ گئے ہیں۔

 

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!