فوج پر حملوں کے بعد عمران کی مقبولیت میں اضافہ کیوں ہوا؟

عمران خان کے سابقہ بہنوئی اور معروف لکھاری حفیظ اللہ خان نیازی نے کہا ہے کہ فوج قیادت کے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث جماعت کے قائد عمران خان کی مقبولیت میں کمی کی بجائے اضافہ کیوں ہوا۔ انکا کہنا ہے کہ بلاشبہ 9 مئی 2023 ہماری تاریخ کا ایک تاریک اور اندوہناک دن تھا۔ یہ واقعہ محض ایک سیاسی تنازع کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ریاستی کمزوری، غیر سنجیدہ حکمتِ عملی اور سیاسی انتقام کا عکاس تھا۔ مختصر یہ کہ ہینڈلرز کی ناکامی ہی سب سے بڑ سانحہ ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تجزیے میں حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ 9 مئی کے سانحے کو ہینڈل کرنے کے لیے جسطرح کہ سنجیدگی درکار تھی، وہ کہیں دکھائی نہیں دی۔ اگر متاثرہ فریقین کے دکھ کو سمجھنے کے بجائے فوری انصاف پر توجہ دی جاتی تو شاید قوم کو اس صدمے سے جلد نکالا جا سکتا تھا۔ نیازی سوال اٹھاتے ہیں کہ دسمبر 2021 تک عمران خان غیر مقبولیت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرے ہوئے تھے، مگر س2ال یہ ہے کہ 10 اپریل 2022 کے بعد ان کی مقبولیت ساتویں آسمان پر کیسے جا پہنچی؟
حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ عمران خان کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد ان کی سیاسی طاقت میں اچانک اضافہ دراصل بعض ادارہ جاتی غلطیوں اور شخصی مداخلتوں کا نتیجہ تھا۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے کردار کو زیرِ بحث لاتے ہوئے نیازی کہتے ہیں کہ باجوہ کے آخری سات ماہ نے پاکستان کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ ایک جانب عمران کے غیر مقبول بیانیے میں جان پڑ گئی، اور دوسری طرف فوج کو خان کے تابڑ توڑ الزامات کا نشانہ بننے دیا گیا۔ ان کے نزدیک 9 مئی 2023نکا سانحہ انہی غلط پالیسیوں کا منطقی نتیجہ تھا جس نے لوگوں کے ذہنوں میں نفرت کا ایک طوفان برپا کر دیا تھا۔
حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ سانحہ 9 مئی 2023 میں ملوث کرداروں کو چند ہفتوں میں انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکتا تھا، مگر ایسا نہ ہوا۔ ان کے مطابق امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں ایسے واقعات کے بعد دنوں میں فیصلے ہوتے ہیں، مگر یہاں شاید ترجیح انصاف نہیں بلکہ سیاسی صفایا تھی۔ فوج نے حساب لینے کے بجائے تحریکِ انصاف کو توڑنے اور کمزور کرنے پر زور دیا۔ تحریک انصاف کے جن رہنماؤں نے 9 مئی کہ حملوں میں ملوث ہونے پر معافی مانگی، انہیں رعایتیں ملیں، جبکہ باقیوں پر سختی بڑھا دی گئی۔ لیکن یہ فوجی قیادت کی خام خیالی تھی کہ ایسا کرنے سے پارٹی ختم ہو جائے گی اور الیکشن سے پہلے میدان خالی ہو جائے گا، 2024 کے الیکشن نتائج نے سب کچھ الٹا کر رکھ دیا۔
حفیظ اللہ نیازی سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر ادارے اور سیاست دان بار بار ایک ہی غلطی دہراتے رہیں تو کیا کوئی اسے نتائج کا جائزہ بھی لیتا ہے؟ وہ یاد دلاتے ہیں کہ 1988 میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے شروع کیے گئے آپریشن مڈنائٹ جیکال کی ناکامی کے بعد کئی ذمہ دار افسران کو گھر جانا پڑا تھا۔ اگر تب احتساب کا عمل سختی سے مکمل کیا جاتا تو آج سیاسی انجینئرنگ کے یہ تجربے بار بار نہ دہرائے جا رہے ہوتے۔ حفیظ نیازی 9 مئی کے حملوں میں 10 برس قید کی سزا پانے والے اپنے اپنے بیٹے حسان خان نیازی کے کیس کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’یہ المیہ صرف ایک خاندان کا نہیں بلکہ پورے نظامِ انصاف کا ہے۔‘‘ 13 اگست 2023 کو حسان نیازی کی گرفتاری کے بعد طویل عرصے تک اس کی کوئی خبر نہ تھی۔ نیازی سوال اٹھاتے ہیں کہ ایک شہری کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے طویل عرصے تک تحویل میں کس قانون کے تحت رکھا جا سکتا ہے؟ ان کے مطابق ہائیکورٹ میں دائر رٹ پٹیشن میں واضح کیا گیا کہ حسان نیازی کی حوالگی غیرقانونی تھی، مگر ریاستی ادارے اپنے اقدامات کو درست ثابت کرنے پر مُصر رہے۔ نیازی کہتے ہیں کہ اگرچہ حسان نیازی کو دس سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی، لیکن کیس کی کارروائی محض چند گھنٹوں میں مکمل ہوئی، جس کا تحریری فیصلہ انہیں آج تک نہیں مل سکا۔ وہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر 9 مئی کے کیسز میرٹ پر چلائے جاتے تو شاید آج ریاست اور عدلیہ دونوں پر اعتماد بحال رہتا۔
آخر میں حفیظ نیازی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ کوئی بھی نظام یا اقتدار مستقل نہیں ہے۔ ہر فیصلہ اور ہر عمل ایک دن جواب دہی کے دائرے میں آتا ہے۔ ان کے مطابق اصل سانحہ یہ نہیں کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے، بلکہ یہ ہے کہ ان حملوں سے بھی ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ نیازی کہتے ہیں کہ مجھے آج بھی اپنے بیٹے سے زیادہ وطن کی فکر ہے، کیونکہ اصل المیہ یہی ہے کہ ہینڈلرز کی ناکامی ہی ریاست کا سب سے بڑا سانحہ بن چکی ہے۔
