حکومت سے مذاکرات میں PTI نے اپنے دو مطالبے واپس کیوں لے لیے؟

تحریک انصاف نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کا فیصلہ آنے سے قبل عمران خان کی رہائی کیلئے کوششیں مزید تیز کر دی ہیں۔ اسی لئے اپنے تمام مطالبات سے دستبردار ہوتے ہوئے پی ٹی آئی قیادت نے حکومت سے مذاکرات کے دوران نئی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ عمران خان کی رہائی اور9 مئی اور 26نومبر کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری پر مرکوز کر لی ہے۔ مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کی قیادت سمجھتی ہے کہ کسی طریقے سے ایک بار عمران خان جیل سے باہر آ جائیں تو حکومت سے باقی مطالبات وہ سڑکوں پر احتجاج کر کے منوا لیں گے۔ تاہم دوسری جانب دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے حکومت پی ٹی آئی پر اعتبار کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ فریقین کی جانب سے بلند و بانگ دعووں کے برعکس اعتماد سازی کے فقدان کی وجہ سے حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔

مبصرین کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے مابین مذاکرات کے پہلے دور کے بعد ہی دونوں طرف سے کہیں لچک دکھائی گئی ہے تو کہیں ایک بداعتمادی کی فضا کا تاثر اب بھی قائم ہے۔پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان سیاسی تناؤ کو کم کرنے کی کوشش میں مذاکرات کے پہلے دور کے بعد دوسری بیٹھک دو جنوری کو ہو گی۔مگر اس سے قبل ہی دونوں جماعتوں کی جانب سے بیانات سے ایسا تاثر مل رہا ہے کہ معاملات جیسے جیسے آگے بڑھیں گے ایک نئی صورتحال ابھر کر سامنے آئے گی۔

مبصرین کے مطابق دو جنوری کو دوسرے اجلاس سے قبل دونوں سیاسی جماعتیں اپنی اپنی حکمت عملی اپنا رہی ہیں۔ جہاں ایک طرف تحریک انصاف اپنی لمبی چوڑی مطالبات کی لسٹ سے دستبردار ہو گئی ہے وہیں پی ٹی آئی قیادت نے اپنی تمام تر توجہ صرف اپنے دو مطالبات پر مرکوز کر لی ہے۔ سابق سپیکر اور رکن قومی اسمبلی اسد قیصر کے مطابق عمران خان نے مذاکرات کے دوسرے اجلاس میں حکومت کے سامنے دو مطالبات پیش کرنے کا کہا ہے۔اسد قیصر کے بقول جو دو مطالبات پیش کیے جائیں گے ان میں سر فہرست عمران خان سمیت تمام رہنماؤں اور کارکنان کی رہائی ہے جبکہ دوسرا مطالبہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینیئر ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل عمران خان کی جماعت کے چار مطالبات تھے جن میں 26 ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ، جمہوریت اور آئین کی ‘بحالی،’ ‘چوری شدہ مینڈیٹ’ کی واپسی اور تمام ‘بے گناہ’ سیاسی قیدیوں کی رہائی شامل تھے

 دوسری جانب اگر مسلم لیگ ن کے بیانات کا جائزہ لیں تو ان کے بیانات سے مذاکرات کو لے کر ایک بد اعتمادی اور غیر یقینی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ جہاں ایک طرف پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ چل رہا ہے اور ان مذاکرات کے پہلے دور کے بعد دوسرا دور دو جنوری کو ہو گا وہیں حکومتی جماعت ن لیگ کے اندر سے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے حق اور مخالفت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

دو جنوری کو ہونے والی مذاکراتی بیٹھک سے قبل ہی ن لیگ سے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے اپنی ہی حکومت کو سر عام یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی سے ہوشیار رہیں خواجہ آصف نے مؤقف اختیار کیا  کہ ‘ہم مذاکرات کے حق میں ہوں، میں اس کا مخالف نہیں ہوں تاہم ‘میں بار بار پوچھ رہا ہوں کہ جو شخص ہم سے ہاتھ نہیں ملانا چاہتا تھا اس کو اب کیا ہوا ہے؟ کہ وہ۔ہم سے مذاکرات کیلئے راضی ہو گیا اس شخص میں یہ تبدیلی کس طرح آئی ؟ یہ مکمل یوٹرن ہے۔’ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مذاکرات نہ کریں لیکن محتاط ضرور رہنا چاہیے۔’وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ‘بانی پی ٹی آئی مینڈیٹ والی بات سے بھی پیچھے ہٹے ہیں، دیکھیں گے کہ پی ٹی آئی کے دو مطالبات پر کیا ہوتا ہے۔‘

تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اچانک اپنے دو مطالبات سے پیچھے کیوں ہٹی اور اس نے چار میں سے صرف دو مطالبات سامنے لانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

سینیئر صحافی نصرت جاوید کے مطابق مطالبات کی فہرست محدود کر کے عمران خان نے پہلی بار اپنے رویے میں لچک دکھائی ہے۔ ان کے مطابق جب دو مطالبات پر بحث شروع ہو گی تو 26 نومبر کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن پر اتفاق ہو سکتا ہے مگر بات اس سے آگے بڑھنا مشکل ہے۔ان کے مطابق 26 نومبر کے واقعے پر بھی اس وجہ سے کمیشن بننے کے امکانات ہیں کیونکہ دونوں اطراف سے اموات ہوئی ہیں اور ایسا کمیشن صرف ایک جماعت یا پارٹی نہیں بلکہ تمام اطراف کی اموات کا تعین کر سکے گا۔

تاہم تجزیہ نگار عارفہ نور کا کہنا ہے کہناس وقت تحریک انصاف کی ترجیح عمران خان کی رہائی ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کی یہ سوچ ہے کہ ایک بار عمران خان باہر آ جائے تو پھر وہ سڑکوں پر آ کر باقی مطالبات بھی منوا لیں گے۔عارفہ نور کے مطابق حکومت کے لیے عمران خان کی رہائی نئے انتخابات کرانے جیسے چیلنج کے برابر ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب عمران خان جیل میں بیٹھ کر اتنا دباؤ ڈال سکتے ہیں تو پھر جب وہ سڑک پر آ گئے تو صورتحال کتنی مشکل ہو جائے گی۔تاہم عارفہ نور کہتی ہیں کہ حکومتی حلقوں میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ کہیں امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کی رہائی کا ہی مطالبہ نہ کر دیں۔ان کی رائے میں یہی وہ امریکی دباؤ کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے حکومت اس معاملے کو پہلے ہی زیر بحث لا رہی ہے تاکہ بعد میں کوئی اقدام اٹھانے میں ندامت نہ ہو۔

Back to top button