افغان طالبان حکومت انڈیا کوچھوڑ کرپاکستان کے قریب کیوں آنے لگی؟

افغان طالبان ایک بار پھر بھارت کو چھوڑ کر پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے مشن پر چل پڑے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران خفیہ ملاقاتیں کر کے بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھانے والے افغان طالبان 10مئی کو پاک فوج کے ہاتھوں مودی سرکار کی دھلائی کے بعد دوبارہ پاکستان سے تعلقات کی مضبوطی کے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق چین میں ہونے والےسہ فریقی مذاکرات میں جہاں افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو پٹا دالنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا وعدہ کیا ہے وہیں چین کی ثالثی میں پاکستان کو یقین دہانی کروائی ہے کہ آئندہ کبھی بھی افغان سرزمین پاکستان میں ہونے والی شرپسندانہ کارروائیوں کیلئے استعمال نہیں ہو گی۔افغانستان نے اسلام آباد اور بیجنگ کو یقین دہانی کروائی کہ وہ پاکستان کے ساتھ متصل اپنی سرحد کو محفوظ بنائے گا اور افغانستان میں بھارت کے اثرورسوخ کو محدود کیا جائے گا۔ جس کے بعد پاکستان اور چین نے افغانستان کو چینی اقتصادی راہداری کے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا حصّہ بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔
مبصرین کے مطابق چین میں ہونے والی سہ فریقی مذاکرات کی ٹائمنگ انتہائی اہم ہے کیونکہ حالیہ پاک بھات کشیدگی کے دوران صرف اسرائیل واحد ملک تھا جس نے کھل کربھارت کا ساتھ دیا تھا جبکہ افغانستان نے اگرچہ کھل کر اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں نہیں ڈالا تھا تاہم پاک بھارت جنگ کے دوران افغان نائب وزیر خارجہ کے خفیہ دورہ بھارت سے پاکستان اور افغانستان میں اختلافات کی خلیج میں اضافہ دیکھا گیا ۔ سینئرصحافی سلمان غنی کے مطابق افغانستان یہ سمجھتا تھا کہ پاک بھارت جنگی تناؤ میں انڈیا کا پلڑا بھاری رہے گا جس کی وجہ وہ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کا خواہاں تھا تاہم دس مئی کو پاک فوج کے ہاتھوں مودی سرکار کی زبردست دھلائی کے بعد جہاں پاکستان کی علاقائی اہمیت بڑھی ہے وہیں افغانستان بھی بھارت کو چھوڑ کر پاکستان کی جانب مائل ہو گیا ہے۔ سلمان غنی کے مطابق موجودہ صورتحال میں چین ہر صورت پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو مستحکم کرنے کا خواہاں ہے اسی لئے چین دونوں ممالک کے مابین گارنٹر کا کردار ادا کررہا ہے کیونکہ چین پاکستان کی طرح افغانستان میں بھی بہت زیادہ انویسٹمنٹ کر رہا ہے اس لئے چین کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں بد امنی رہے یا افغانستان اور چین کے تعلقات میں کوئی خلل آئے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی ثالثی میں پاک افغان تعلقات میں بہتری کے اعلان کے بعد اب افغان طالبان کو اپنی پالیسیوں بارے یکسوئی اختیار کرنا ہو گی،تعلقات میں بہتری کیلئے افغانستان کو اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہو گااس حوالے سے گیند افغان انتظامیہ کے کورٹ میں ہے دوسری طرف حالیہ مذاکراتی عمل میں افغان انتظامیہ نے پاکستان اور چین کو اس حوالے سے واضح یقین دہانی کرائی ہے کہ نہ صرف وہ ٹی ٹی پی کو پٹا ڈالیں گے بلکہ پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرنے والوں کو افغانستان میں جائے پناہ نہیں ملے گی۔
تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ تازہ پیشرفت کے مطابق پاکستان اور افغانستان کی طرف سے اپنے سفیروں کی تعیناتی کو بھی مستقبل کے پاک افغان تعلقات بارے اہم قرار دیا جا رہاہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی اور افغانستان نئے حالات میں کسی اور طرف دیکھنے کی بجائے اسلام آبادسے ہی تعلقات قائم رکھے گا۔
بیجنگ میں پاکستان کے 13 سال تک سفیر رہنے والے مسعود خالد کے مطابق چین کی جانب سے پاکستان اور افغانستان میں تصفیہ ایک اچھا اقدام ہے اس سے بہتری اور استحکام آئے گا، یہ اقدام بہت اچھا ہے لیکن اس کے نتائج کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا کیونکہ افغان عمومی طور پر اپنی یقین دہانیوں کے معاملے میں غیر حتمی اور غیر یقینی سے صورتحال کا شکار نظر آتے ہیں۔ پتہ نہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کو کنڑول کر نہیں سکتے یا کرنا نہیں چاہتے۔
ایک سوال کہ بھارت کے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات بہت بہتر ہو رہے ہیں؟ سفارتکار مسعود خالد نے کہا کہ اس وقت انڈیا ایک زخمی شیر ہے اور وہ ہر اُس صورتحال کا فائدہ اُٹھانا چاہے گا جو پاکستان کے خلاف ہو حالانکہ افغانستان کے معاملے میں ہمیں انڈیا کے مقابلے میں زیادہ قربت حاصل ہونی چاہیے کیونکہ ہمارا بارڈر افغانستان کے ساتھ ملتا ہے، ہماری زبان، ثقافت اور نسل کے تعلقات افغانستان کے ساتھ زیادہ ہیں اور اُس سے بڑھ کر افغان تجارت کا زیادہ تر انحصار پاکستان پر ہے۔
دوسری جانب افغان اُمور کے ماہر اور تجزیہ نگار صحافی فخر کاکاخیلکا کہنا ہے کہ افغان طالبان بلیک میلنگ کے لیے تو بھارت کے ساتھ تعلقات کا ذکر کر سکتے ہیں لیکن نظریاتی طور پر وہ چونکہ بھارت مخالف ہیں اس لیے وہ کبھی بھی بھارت کا ساتھ نہیں دیں گے۔انہوں نے کہاکہ اس وقت پوری دنیا میں ٹریڈ وارز یعنی تجارتی جنگیں چل رہی ہیں اور افغان طالبان حکومت بھی بالکل نہیں چاہے گی کہ وہ تنہا ہو جائے جس سے اُس کو تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑے۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ مہینوں میں جب پاکستان نے طورخم اور چمن بارڈرز کو بند کیا تو اُس سے دونوں ملکوں کو کافی تجارتی نقصان ہوا۔ چین اس خطّے میں ایک استحکام لانے والی طاقت کے طور پر کام کررہا ہے اور استحکام کے لیے امن ضروری ہے۔انہوں نے نے کہاکہ چین کو گوادر کی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے مختصر ترین راستہ پاکستان کے شمال سے خیبرپختونخوا سے ہوتا ہوا بلوچستان سے گزرتا ہے اور یہ علاقہ امن و امان کے مسائل کا گڑھ ہے اور چین بطور ایک سہولت کار کے کام کر رہا ہے کیونکہ اُس کا اپنا مفاد بھی وابستہ ہے۔ دوسرا یہ کہ وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ زمینی راستے افغانستان سے ہو کر گزرتے ہیں تو چین اس خطّے میں امن امان کے لیے مخلص ہے۔فخر کاکاخیل نے کہاکہ پاکستان، افغانستان اور ایران کو سمجھ آ چُکی ہے کہ پڑوسی نہیں بدلے جا سکتے اور اب ان تینوں ممالک کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے تعلقات فروغ پا رہے ہیں۔