عمران کی کال پر پنجاب کے عوام احتجاج میں شریک کیوں نہ ہوئے؟

پی ٹی آئی اسلام آباد میں فائنل کال کے نام پر ایک ناکام دھرنے کی انتشاری کوشش کے بعد سیاسی طور پر مشکل میں نظر آرہی ہے۔ جہاں ایک طرف تحریک انصاف کی فائنل احتجاج کی مس کال بارے مختلف توجیہات پیش کی جا رہی ہیں وہیں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ  پنجاب سے تحریک انصاف کی قیادت یا اُن کے کارکن دھرنے کی کال پر کیوں نہیں نکلے؟خود پی ٹی آئی کے رہنما شوکت یوسفزئی نے ایک ویڈیو بیان میں پنجاب کی قیادت پر تنقید کی ہے سوال کیا ہے کہ فائنل کال کے دوران پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت کہاں تھی؟

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دھرنا اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اپنے صوبے میں واپس جا چکے ہیں لیکن اس وقت بھی پنجاب کی تحریک انصاف کی قیادت سرے سے دستیاب نہیں ہے۔

 تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ پنجاب سے پاکستان تحریک انصاف کی کوششوں کے باوجود لوگ اس طرح سے تمام احتجاجی کالز کا جواب نہیں دے رہے۔

اس حوالے سے سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان تحریک انصاف بنیادی طور پر نو مئی سے باہر نہیں نکل سکی، نو مئی کا سب سے زیادہ خمیازہ پنجاب کی لیڈرشپ کو بھگتنا پڑا ہے۔‘

’سب سے بڑا واقعہ بھی لاہور میں ہوا جب جناح ہاؤس پر احتجاج کر کے اس کو جلایا گیا۔ 9 مئی کے آفٹر شاکس اتنے زیادہ ہیں کہ انھوں نے پاکستان تحریک انصاف پنجاب کو تقریباً مفلوج کر کے رکھا ہوا ہے۔‘

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی ساری لیڈرشپ یا تو جیلوں میں ہے یا روپوش ہیں، اور اس وقت پارٹی جن کے ہاتھ میں ہے اُن کے پاس لیڈرشپ کا فقدان ہے اور وہ اپنے کارکنوں سے رابطہ نہیں کر پا رہے۔ جس کی وجہ سے پی ٹی آئی پنجاب میں تقریبا مفلوج ہو چکی ہے۔

سلمان غنی کے مطابق ’ عثمان بزدار کو وزیراعلٰی پنجاب بنانے کے فیصلے کی وجہ سے بھی پنجاب میں تحریک انصاف کا تنظیمی سٹرکچر کافی حد تک کمزور ہوا کیونکہ پارٹی کی مرکزی لیڈرشپ کو یہ فیصلہ پسند نہیں تھا۔‘

تاہم سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان تحریک انصاف اپنی سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے پنجاب میں زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔‘

سہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی کے کئی لوگ آج بھی نو مئی اور اس کے بعد سے مقدمات بھگت رہے ہیں اور جیلوں میں ہیں، جبکہ تحریک انصاف کے جو متحرک کارکن تھے وہ اس وقت اپنے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور پارٹی کی جانب سے انہیں بہت زیادہ قانونی معاونت بھی دستیاب نہیں ہے۔‘ جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کارکنان مایوسی کا شکار ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کارکنان اپنے مقدمات خود جھیل رہے ہیں جبکہ پارٹی کا بنیادی تنظیمی ڈھانچہ بھی نو مئی کے بعد کمزور ہوا ہے جس کا خمیازہ تحریک انصاف کو اپنی سیاسی سرگرمیوں میں بھگتنا پڑتا ہے۔‘سہیل وڑائچ کے مطابق ’اسلام آباد دھرنے میں بھی یہی ہوا ہے کہ احتجاج کی قیادت کرنے کیلئے لیڈرشپ دستیاب نہیں تھی اور حقیقت یہ ہے کہ قیادت کے بغیر عوام کو باہر نہیں نکالا جا سکتا۔‘ اسی وجہ سے پنجاب سے عوام سڑکوں پر نہیں آئی۔

بعض دیگر مبصرین کے مطابق بشری بی بی کے آمرانہ رویے کی وجہ سے پی ٹی آئی اراکین اسمبلی مایوسی کا شکار تھے کیونکہ انھیں ہزاروں افراد کے ہمراہ اسلام آباد آنے پر مجبور کیا جا رہا تھا اور انھیں پارٹی سے نکالنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں جبکہ افرادی قوت کے ٹارگٹ سے متعلق شکایت پر قیادت کی طرف سے کہا گیا کہ یہ کرنا ہے، جس سے پی ٹی آئی پنجاب کے رہنما مایوس ہوگئے اور انہوں نے کوئی تیاری نہیں کی۔

اس حوالےسے ذرائع نے بتایا کہ پنجاب سے چند اراکین اسمبلی اور رہنما ضرور اسلام آباد پہنچے لیکن زیادہ تر ایم پی ایز اور ایم این ایز چھپ گئے اور قیادت کو کہتے رہے کہ راستے بلاک ہیں ہم دیگر راستے تلاش کر کے پہنچ رہے ہیں کچھ فرمائشی گرفتار بھی ہوگئے۔ذرائع نے بتایا کہ آئے روز احتجاج، ایف آئی آرز، جیل جانے کے ڈر سے پنجاب کی عوام باہر نہیں نکلی، پنجاب کے عوام اور رہنما اپنے آپ کو گرفتاری سے بچاتے ہوئے قیادت کو دھوکا دیتے رہے۔

Back to top button