عمران خان کا قید سے رہائی پانے کا خواب پورا کیوں نہیں ہوگا؟
اسلام اباد کے ڈی چوک میں احتجاج کی فائنل کال دیتے وقت عمران خان یہ بھول گے کہ جنہوں نے انہیں بنایا تھا اب وہ انہیں مٹانے پر تلے بیٹھے ہیں لہذا ان کے احتجاج کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔
اڈیالہ جیل میں ڈیڑھ برس سے قید فرسٹریشن کا شکار قیدی نمبر 804 کو پوری امید تھی کہ اس مرتبہ جب ان کے چاہنے والوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بشری بی بی کی قیادت میں اسلام اباد پہنچے گا تو حکمرانوں کے پاس انہیں رہا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ لیکن ان کا خواب سراب نکلا ور انکی خوش فہمی غلط فہمی ثابت ہوئی۔ ڈی چوک پہنچنے والے یوتھوں پر جیسے ہی رینجرز کے دستوں نے رات گئے آنسو گیس کی شیلنگ شروع کی تو سب سے پہلے بشری بی بی اور علی امین گنڈا پور ہی فرار ہوئے۔ ایسے میں ورکرز کا ڈی چوک پر کھڑے رہنا ناممکن تھا لہذا وہ بھی بھاگ نکلے۔
عمران خان کی فائنل احتجاج کی کال ناکام ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ دراصل عمران خان نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران یہ حقیقت بھلا کر کے وہ خود اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں، اسٹیبلشمنٹ کو ہی چیلنج کر کے رہائی بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس سے اقتدار بھی چھیننا چاہتے ہیں لہازا شکست انکا مقدر یے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو اقتدار دے کر جو غلطی کی اس سے سبق بھیبسیکھا ہے اور اب دوبارہ ایسی غلطی کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔
اس حوالے سے معروف صحافی اور تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ’یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ عمران نے اسلام آباد میں احتجاج کی فائنل کال دے کر کیا کھویا، کیا پایا لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہیں اب تک یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ عسکری ہاتھوں سے بنائے شطرنج کے مہرے تھے اور جنھوں نے انہیں بنایا تھا وہ اب نہیں رہے، انہیں جس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا وہ پورا ہو چکا لہازا اب عمران کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں۔
وجاہت مسعود کے خیال میں فوج کی جانب سے ’عمران کو بنانے کا مقصد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو ناکارہ کرنا تھا، اور وہ ناکارہ ہو چکیں اور اسی لیے اب فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چل رہی ہیں۔ اُن کے خیال میں پی ٹی آئی کے لیے اسلام آباد کی طرف مارچ کر کے آنا ہی بے کار تھا۔ وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان اب تک 2011 میں رہ رہے ہیں، جب ان کے پاس لاؤ لشکر تھا، اسٹیبلشمنٹ کی قوت تھی۔‘
اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عمران خان کے اسلام اباد مارچ کے وقت جو تین مطالبات پیش کیے گئے وہ ناقابل قبول تھے لہذا ناکامی ان کا مقدر تھی۔ اس کے بعد سب سے بڑی غلطی پی ٹی ائی کی قیادت نے یہ کی کہ اسلام اباد پہنچ کر حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش مسترد کر دی اور عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر دیا جسے قبول کرنا ناممکن تھا۔ انکا کہنا ہے کہ چند ہزار لوگوں کو اکٹھا کر کے حکومت کو کسی قیدی کی رہائی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت نے تو سالہا سال جیل کاٹی لیکن یہ مطالبہ نہیں کیا۔
وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ اگر عمران خان کو سیاست کرنا ہے تو ان کو اب تمام خوش فہمیوں سے باہر نکل کر سیاستدان بننا ہو گا۔ ان کی اہلیہ میں یہ اہلیت نہیں ہے جو کہ ثابت بھی ہو چکا۔ اسلام اباد پہنچ کر تحریک انصاف کے پاس حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کا ایک سنہری موقع موجود تھا جسے ضائع کر دیا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں انسو گیس کھا کر فرار ہونا پڑا۔ وجاہت کہتے ہیں کہ اگر عمران خان کو پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر قائم رہنا ہے تو پھر انہیں سیاسی لبادہ اوڑھنا پڑے گا۔ ان کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک جانب وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنگ کا تاثر دیتے ہیں اور دوسری جانب سیاست دانوں کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی مذاکرات کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی کی جانب سے حکومتی آفر قبول کرنے ڈی چوک جانے کے فیصلے نے پی ٹی آئی کو سیاسی نقصان پہنچایا ہے۔ بشری کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے، ان کی کوئی سیاسی تربیت نہیں ہے، ان کو نہیں معلوم سیاست کیسے ہوتی ہے۔ ان کے اقدامات کی وجہ سے عمران خان کو کافی نقصان ہو چکا ہے۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے ایک بڑے احتجاج کے بعد بھی ان کے مطالبات جوں کے توں ہیں اور خان صاحب بدستور جیل میں بند ہیں۔