ہمیشہ نون لیگی حکومت ہی میڈیا مخالف قانون کیوں لاتی ہے؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار شکیل انجم نے کہا ہے کہ سال 2016 میں میڈیا مخالف پیکا قانون نافذ کرنے والی نون لیگ کی حکومت نے اب ایک اور قانون کے ذریعے میڈیا کی مکمل زبان بندی کا بندوبست کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت آزادئ اظہار پر یقین رکھنے والوں کی زبان بندی کے لئے ہر لائن کراس کرنے کے لئے تیار دکھائی دیتی ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں شکیل انجم کہتے ہیں کہ صحافت اور آزادئ اظہار اور ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد کرنے اور ان کی زبان بندی کے لئے سخت ترین قوانین لاگو کرنے کا سلسلہ تو تاریخ کے بدترین آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ہی شروع ہو گیا تھا لیکن ہر دور میں ان کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔نتیجتاً اب حالت یہ ہے کہ میڈیا ایک ایسے انجانے خوف میں مبتلا ہے جو لہ صحافت کے مستقبل کو اندھیروں کی جانب دھکیل رہا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ نون لیگی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ پیکا بل’’آزادئ اظہار رائے اور آزادئ صحافت‘‘پر قدغن نہیں لگائے گا بلکہ اس کا مقصد اس بے لگام سوشل میڈیا کو لگام ڈالنا ہے جو لوگوں کی عزتیں اچھالنا باعث عزت سمجھتا ہے۔

شکیل انجم کے مطابق اگر حکومت کا مؤقف درست ہے تو اس قدر جلد بازی میں قانون سازی کا مطلب اور قصد کیا ہے۔ کیوں قانون سازی کے لئے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا؟ کیوں صحافت اور آزادئ اظہار پر قدغن لگانے کا قانون نافذ کرنے میں جلد بازی سے کام لیا گیا؟ کیا اس پراسرار جلد بازی سے ان کی نیت میں فتور کی نشاندہی نہیں ہوتی؟ کیوں ’’صحافت اور عملی صحافت‘‘ کی واضح تشریح نہیں کی جا سکتی؟کیا حکومتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ملازمت سے نکالا جانے والا شخص صحافی نہیں رہتا، جیسے عمران حکومت نے نصرت جاوید جیسے جید صحافیوں کو ملازمت سے نکلوا کر انہیں ’’غیر صحافی‘‘ قرار دے دیا تھا۔ یہ وقت کے حکمرانوں کی چالاکی نہیں بلکہ جہالت تھی کیونکہ صحافی کبھی ملازمتوں کا محتاج نہیں ہوتا، وہ مرنے کے بعد بھی صحافی ہی رہتا ہے۔

یاد ریے کہ اس سے پہلے اگست 2016 میں نون لیگ کی حکومت نے ایک میڈیا مخالف ’’کالا قانون‘‘ قومی اسمبلی  میں متعارف کرایا تھا جسے کسی سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر جلد بازی میں لاگو کردیا جیسے کوئی ’’ڈنڈا‘‘ ان کے تعاقب میں تھا۔ اس قانون کو تب کی اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کی جانب سے’’ڈریکونین لا‘‘ قرار دیا گیا تھا، لیکن جب عمران خان اقتدار میں آئے تو ان کی اولین ترجیحات میں میڈیا کا گلہ کاٹنا شامل تھا۔ انہوں نے انتہائی رازداری کے ساتھ صحافت کی آزادی پر شب خون مارا اور ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نون کیگی حکومت سے کہیں زیادہ زہریلا اور کالا قانون لاگو کردیا۔

شکیل انجم یاد دلاتے ییں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس قانون کو غیر آئینی اور غیرقانونی قرار دیتے ہوئے صدارتی آر ڈیننس کے ذریعے منظور کئے جانے والے بل کو مسترد کر دیا تھا۔ اسی قانون کی بنیاد پر عمران دور حکومت میں سینیئر صحافیوں عامر میر اور عمران شفقت کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ عمران حکومت کے خاتمے کے بعد اس قانون کو متعارف کرانے والی مسلم لیگ (ن) اقتدارمیں آئی تو اس نے اپنا ’’ادھورا مشن‘‘ مکمل کرنے کا فیصلہ کیا اور پہلے سے کہیں زیادہ سخت ترامیم کے ساتھ کسی اتحادی پارٹی یا سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر پارلیمنٹ سے اس کی منظوری لے کر نافذ کر دیا۔

اس قانون کے نافذ ہونے پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس سمیت تمام میڈیا تنظیموں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن نے اس قانون کی زور زبردستی منظوری پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اغاز کر دیا گیا ہے۔ ناقدین کا موقف ہے کہ یہ قانون سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔ نئے قانون کی دفعہ 26-اے میں’’جعلی یا جھوٹی خبروں‘‘ پر زور دینا تشویشناک ہے۔ بل کے متن میں’’جعلی خبروں‘‘ کی واضح تعریف فراہم نہیں کی گئی اور مبہم نتائج جیسے عوامی ’’خوف، گھبراہٹ یا بدامنی‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ تین سال تک قید کی سزا غیر ضروری اور سخت ہے۔ڈیجیٹل مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے چار نئی اتھارٹیز کا قیام، جو کہ کثیر سطحی کنٹرول نافذ کرے گا، اظہارِ رائے اور رائے کی آزادی پر منفی اثر ڈالے گا۔اس کے علاوہ، مجوزہ’’سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل‘‘ کے فیصلوں کو براہِ راست سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے اور اس ٹریبونل میں حکومتی تقرری کے اراکین کی شمولیت بھی باعثِ تشویش ہے، کیونکہ اس سے عدالتی نگرانی کم اور ایگزیکٹو کنٹرول بڑھنے کے امکانات ہیں۔

Back to top button