عمران کو ہائی سکیورٹی زون میں کیوں شفٹ کیا جارہا ہے؟

 

بھارت، افغانستان اور تحریک لبیک جیسے مشکل چیلنجز سے نمٹنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے لیے اب جو چیلنج باقی بچا ہے وہ عمران خان اور انکی تحریک انصاف کے فوج مخالف بیانیے سے نمٹنا ہے۔ عمران کو اڈیالہ جیل سے ایک ہائی سکیورٹی زون میں شفٹ کرنے کا منصوبہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عمران اور ان کی جماعت بھی اسی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں جس سے تحریک لبیک دو چار ہوئی ہے۔

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی روزنامہ جنگ کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاک فوج نے بھارت اور افغانستان کی جارحیت کا بلاشبہ منہ توڑ جواب دیا ہے، لیکن بیرونی دشمن پر کامیابی حاصل کرنا ایک الگ بات ہے، اور اندرونِ ملک شرپسندوں کو قابو کرنا اس سے مختلف اور مشکل کام ہے۔ حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان جیسی خطرناک تحریک اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے، مگر وہ اس بات پر حیرت اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ "لبیک” جیسے خوبصورت اور مقدس لفظ کو کس طرح شر انگیزی اور شدت پسندی کے لیے استعمال کیا گیا۔ ان کے مطابق یہ عمل عقل و فہم سے بالاتر ہے کہ عقیدت کو فتنہ پروری کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔

حفیظ اللہ نیازی نشاندہی کرتے ہیں کہ تحریک لبیک نے اپنے قیام سے لے کر اب تک نہ صرف ریاستی وسائل کو مسلسل نقصان پہنچایا بلکہ نفسیاتی طور پر بھی قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ جانی و مالی نقصان الگ بات ہے، مگر ذہنی خلفشار نے سیاسی نظام کو اور بھی غیر متوازن کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب جب حالات قابو میں آ رہے ہیں، تو ہمیں ان محرکات اور ریاستی کرداروں کو نہیں بھولنا چاہیے جنہوں نے تحریک لبیک نامی خونی بلا کو جنم دیا، اسے پروان چڑھایا، اور پھر اسے ریاستی مفادات کے تحت استعمال کیا۔ حفیظ اللہ نیازی یاد دلاتے ہیں کہ عمران خان کے قریبی ساتھی اور آئی ایس ائی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید نے بڑی شان و شوکت سے ٹی ایل پی کو بنایا اور ہھر پروان چڑھایا تاکہ نواز شریف کی حکومت کو کمزور کیا جا سکے۔

عمران خان کے سابقہ بہنوئی سوال اٹھاتے ہیں کہ جب لبیک نامی اس تحریک کو سردیوں میں فیض آباد دھرنے کے دوران کھانے، گرم بستر، خشک میوہ جات اور مکمل آرام دہ قیام کی سہولیات فراہم کی گئیں، تو یہ کس کے حکم پر کیا جا رہا تھا؟ کیا یہ سب کچھ آرمی چیف کی مرضی کے خلاف کیا جا رہا تھا؟ بظاہر ایسا ممکن نہیں۔ حفیظ اللہ نیازی انکشاف کرتے ہیں کہ نومبر اور دسمبر 2017 کے وہ دن دراصل اس ملک کی سیاسی تاریخ کے سیاہ ترین دن تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ریاست کی مشینری خود ٹی ایل پی نامی فتنے کی پشت پر کھڑی نظر آتی تھی اور اس کی غنڈہ گردی کو لائیو ٹی وی چینلز پر دکھانے کے حکم نامے جاری ہوتے تھے۔ فرق یہ ہے کہ اب تحریک لبیک کے دھرنوں اور مظاہروں کی ٹی وی کوریج پر پابندی عائد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2017 کے حکومت مخالف دھرنے کے دوران تحریک لبیک اور تحریک انصاف ایک ہی صفحے پر تھے اور تب کی اسٹیبلشمنٹ سے فیض یاب ہو رہے تھے۔

حفیظ اللہ نیازی کے مطابق، عمران خان اور اداروں کا گٹھ جوڑ ایک افسوسناک باب تھا، جہاں سوشل میڈیا، تقریریں اور جلسے محض ایک منظم فتنہ انگیزی کا حصہ بن گئے۔
جب سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے کا از خود نوٹس لیا اور ذمہ داروں کی نشاندہی کی، تو ریاست اور تحریک انصاف نے یکجا ہو کر قاضی فائز عیسی کے خلاف محاذ کھول دیا۔ انکو قتل کی دھمکیاں دی گئیں، خاندان پر الزامات لگائے گے، اور توہین آمیز مہم چلائی گئی۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ قاضی فائز عیسی نے ٹی ایل پی نامی فتنے کو بے نقاب کرنے کی جسارت کی۔

حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے گٹھ جوڑ نے اقتدار میں آتے ہی قاضی فائز کو صدارتی ریفرنس کے ذریعے بطور جج ہٹانے کی کوشش کی۔ ان کا جرم یہی تھا کہ انہوں نے جنرل فیض حمید کو قانون کے دائرے میں لانے کا حکم دیا تھا اور تحریک لبیک کو ان کی سہولت کار قرار دیا تھا۔ اس جرم کی پاداش میں قاضی صاحب اور ان کی اہلیہ کو ایف بی آر، عدالتوں اور اداروں کے چکر لگانے پر مجبور کیا گیا۔ مگر حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ "جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے”۔ قاضی فائز عیسیٰ آخرکار سرخرو ہوئے۔

حفیظ اللہ نیازی واضح کرتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست، اپریل 2014 سے اپریل 2022 تک، اگر شر، جھوٹ اور فتنہ پروری پر قائم تھی، تو اس کے پیچھے بھی وہی نظام تھا جو TLP جیسے گروہوں کو تخلیق کرتا رہا۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ جب نواز شریف کو محض بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر بلیک لا ڈکشنری کے سہارے نااہل کیا گیا، تو کلثوم نواز کو ان کی خالی ہونے والی سیٹ پر ہرانے کے لیے TLP، تحریک انصاف اور ملی مسلم لیگ کو اکٹھا کر دیا گیا۔ یہ سب محض اتفاق نہیں تھا۔ حفیظ نیازی کے مطابق، یہ ایک منظم سکرپٹ کا حصہ تھا۔

اب جبکہ TLP کو ریاستی سطح پر بیخ کنی کی طرف لے جایا جا رہا ہے، حفیظ اللہ نیازی کا سوال ہے کہ کیا وہ عناصر، جنہوں نے یہ فتنہ بویا، اسے سینچا، اور پالا، کیا وہ بھی کبھی جوابدہ ٹھہراتے جائیں گے؟ وہ کہتے ہیں: کاش، زندگی میں ایک بار، ان کرداروں کو نشانِ عبرت بنتے دیکھ سکیں، تاکہ یہ باب ہمیشہ کے لیے بند کیا جا سکے۔

حفیظ اللہ نیازی خبردار کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی عمران بمقابلہ ریاست کشمکش کو نئی سطح پر لے جانے کی کوشش ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور کا رول مکمل ہو چکا تھا، ان کی سیاسی افادیت ختم ہو چکی تھی، لہٰذا ان کا رخصت ہونا طے تھا۔ انکے مطابق، عمران خان اور ریاست کے درمیان حتمی تصادم کا وقت قریب تر آ رہا ہے۔ بلی تھیلے سے باہر آ چکی ہے۔ جنرل فیض حمید کا کارڈ ایک بار پھر استعمال ہونے جا رہا ہے۔ عمران خان کی اڈیالہ جیل سے ہائی سیکیورٹی زون منتقلی اسی تناظر میں دیکھی جا رہی ہے۔

Back to top button