پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش 38 ہزار، قیدی 70 ہزار

پنجاب کی جیلیں عملاً اذیت گاہوں اور جرم کی نرسریوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ایسے میں 38ہزار افراد کی گنجائش کی حامل پنجاب کی جیلوں میں 70ہزار سے زائد قیدیوں کی موجودگی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، پنجاب کی جیلوں میں گنجائش سے ڈبل قیدیوں کی موجودگی ریاستی نااہلی، عدالتی بےحسی اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی بدترین مثال بن چکی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف حکومتی اور عدالتی نظام کی ناکامی ہے بلکہ یہ معاشرتی بگاڑ کی جڑ بھی بنتی جا رہی ہے۔ حقیقت میں اصلاح کیلئے قائم پنجاب کی جیلیں جرائم کی نرسریاں بن چکی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب بھر کی 45 جیلوں میں کُل گنجائش صرف 38 ہزار 317 قیدیوں کی ہے مگر اس وقت 72 ہزار 117 قیدی موجود ہیں جو گنجائش سے 88 فیصد زائد ہے۔ جن میں 70 ہزار مرد، 1360 خواتین اور 893 کم عمر قیدی شامل ہیں۔ گزشتہ دو ماہ میں سات ہزار کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ لاہور کی کیمپ جیل میں 2000 کی گنجائش کے باوجود 7200 قیدی بند ہیں جبکہ اڈیالہ جیل میں 2174 کی جگہ 8174 قیدی پابند سلاسل ہیں۔ لاہور کی دونوں جیلوں میں 4300 کی گنجائش کے مقابلے دس ہزار پانچ سو سے زائد قیدی موجود ہیں، جو اوور کراؤڈنگ کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کی کثرت نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو جنم دیا ہے۔ جہاں 20 قیدیوں کی گنجائش ہو، وہاں 50 سے زائد قیدی ٹھونس دیے جاتے ہیں۔ اس سے صرف جگہ کی تنگی نہیں ہوتی، بلکہ صفائی، خوراک، صحت، نیند، اور ذاتی تحفظ جیسے بنیادی انسانی حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جیلوں میں بیماریوں کا پھیلاؤ عام ہے، جبکہ ذہنی صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جنسی ہراسانی، بدسلوکی اور قیدیوں پر تشدد جیسے معاملات عام ہیں، جن کی جانب حکومت نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
۔ پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں اس غیر معمولی اضافے کی سب سے بڑی وجہ زیرِ سماعت قیدیوں کی بھاری تعداد ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق قیدیوں کی کل تعداد میں سے تقریباً 65 فیصد افراد ایسے ہیں جنہیں ابھی عدالت سے کوئی سزا نہیں سنائی گئی۔ یہ صورتحال پاکستان کے نظامِ انصاف کی سست روی اور مقدمات کے طویل دورانیے کو ظاہر کرتی ہے، جہاں برسوں مقدمہ چلنے کے باوجود فیصلہ نہیں آتا اور ممکنہ طور پر بےگناہ شخص کئی سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑتا رہتا ہے۔
جیل حکام کی جانب سے سامنے آنے والے اعداد و شمار سے بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ صوبے میں جرائم کی شرح بڑھ گئی ہے لیکن یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ مبصرین کے مطابق جیلوں میں موجود قیدیوں کی تعداد میں اچانک اتنا بڑا اضافہ پنجاب میں ایک قانون کی تبدیلی سے جڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ برس یعنی 2024 میں پنجاب حکومت نے منشیات کے قوانین میں اہم تبدیلیاں کیں جو آج جیلوں کی اس بھرتی کی بنیادی وجہ بنی ہوئی ہیں۔جس کے نتیجے میں منشیات کے ملزمان، جو اب سب سے بڑی تعداد میں جیلوں میں داخل ہو رہے ہیں ان کی ضمانت ہی نہیں ہو پا رہی۔ گزشتہ برس سے یہ رجحان شروع ہوا، اور آج منشیات فروشی کے ملزمان جیلوں کی اوور کراؤڈنیگ کا سب سے بڑا سبب بن چکے ہیں۔ ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب کا کہنا ہے کہ ایک سال میں منشیات کے قیدیوں اور ملزمان کی تعداد دو گنا ہو چکی ہے۔ مجبوراً موجودہ بیرکس میں ہی قیدیوں کو ایڈجسٹ کیا جا رہا ہے اور اوور کراؤڈنگ کی وجہ سے بیماریوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
بظاہر محکمہ داخلہ پنجاب اس صورتحال سے بخوبی آگاہ ہے۔ ترجمان محکمہ داخلہ کے مطابق صوبے میں فی الحال 45 جیلیں ایکٹو ہیں جبکہ چار مزید زیرِ تعمیر ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان زیرِ تعمیر جیلوں کو اب دو منزلہ بنایا جا رہا ہے تاکہ گنجائش میں اضافہ کیا جا سکے۔ لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی میں خواتین کی الگ جیلیں بھی تعمیر ہو رہی ہیں، جو کل ساڑھے چھ ہزار قیدیوں کے لیے اضافی جگہ فراہم کریں گی۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی جیلوں کی تعمیر سے اوورکراؤڈنگ کے مسائل کا حل ممکن ہے؟ جسٹس فار پیس کی سربراہ سارہ بلال کہتی ہیں کہ جیلوں میں اوور کراؤڈنگ کو دور کرنے کے لیے معمولی جرائم کے قیدیوں کو پیرول پر رہا کرنا چاہیے۔ ’جیلوں کا زیادہ بنانا صرف عارضی راحت ہے، اصل حل ضمانت کے قوانین میں نرمی اور پیرول کی سہولت ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ 2020 میں کرونا کے دوران، پنجاب نے سات ہزار قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیا تھا جس سے جیلوں کا بوجھ نمایاں طور پر کم ہو گیا تھا، آج بھی اگر منشیات کے چھوٹے مقدمات میں ضمانت کی راہ کھول دی جائے تو ہزاروں خاندان متاثر ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق جیلوں میں قید بہت سے افراد معمولی نوعیت کے جرائم میں گرفتار ہوتے ہیں، جن کی سزا ضمانت پر رہائی یا متبادل سزاؤں کی صورت میں دی جا سکتی ہے۔ لیکن غربت، قانونی معاونت کی کمی اور نظام کی پیچیدگی کی وجہ سے یہ افراد طویل عرصے تک قید میں رہتے ہیں۔ ان میں سے کئی وہ ہیں جو صرف معمولی چوری، لڑائی یا ٹریفک خلاف ورزی جیسے معاملات میں گرفتار ہوئے، مگر اب وہ ایک ایسی فضا میں رہ رہے ہیں جہاں سے باہر نکلنے کے بعد ان کا مجرم بن جانا تقریباً یقینی ہوتا ہے۔
