مذاکرات کے باوجود پاک افغان تعلقات میں بہتری ممکن کیوں نہیں؟

پاکستان اور افغان حکام کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں طے پانے والا عارضی سیز فائر ختم ہونے کے بعد 6 نومبر سے شروع ہونے والے مذاکرات کے اگلے دور میں بھی کوئی دیرپا حل سامنے آنے کی توقع نہیں کیونکہ افغان حکومت اب بھی تحریکِ طالبان کے دہشتگردوں کی پشت پناہی روکنے سے انکاری ہے۔
استنبول مذاکرات کے دوران اور اس کے بعد دونوں فریقین ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان موقف پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سابق مذاکرات میں افغانستان نے پاکستان کو مطلوب افراد کی ملک بدری کی پیشکش کی تھی، جسے مسترد کر دیا گیا۔ لیکن پاکستانی وزارت خارجہ نے افغان ترجمان کے بیان کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے، پاکستان نے افغان سرزمین پر موجود دہشت گردوں کی گرفتاری اور حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ دہشت گردوں اور مجرموں کو ملک بدر نہیں کیا جاتا بلکہ گرفتار کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے کہا کہ دہشت گردوں کی حوالگی صرف سرحدی انٹری پوائنٹس پر ریکارڈ کے ساتھ ممکن ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا موقف واضح رہا ہے کہ دہشت گردوں کو بغیر ریکارڈ کے سرحد پار منتقل کرنا قابل قبول نہیں۔
دوسری طرف افغان طالبان نے پاکستانی افواج پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ افغانستان میں کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ بگرام ایئربیس پر امریکی فوج کی واپسی کا راستہ ہموار ہو سکے۔ پاکستان نے اس الزام کو سختی سے رد کرتے ہوئے بیہودہ قرار دیا ہے۔
پاکستان نے افغان حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ طالبان دہشت گردوں کو بارڈر پار کرتے ہوئے پاکستان سکیورٹی فورسز پر حملوں سے روکا جائے ورنہ سنگین نتائج کا سامنا کرنے کی تیاری کی جائے۔ پاکستانی حکام کے مطابق حقانی نیٹ ورک کے زیرِ اثر مشرقی افغانستان میں ایسی پناہ گاہیں موجود ہیں جہاں سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد اپنی سرگرمیاں چلاتے ہیں، پاکستان نے جب بھی ان عناصر کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو حقانی نیٹ ورک نے انکار کیا۔
تحریک طالبان، افغان حکومت کا سب سے مہلک ہتھیار کیسے بن گئی؟
افغانستان کے وزیر دفاع سراج الدین حقانی کے حالیہ بیانات نے بھی کشیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک طرف امن کی خواہش کا اظہار کیا تو دوسری طرف پاکستان کو یہ تنبیہ بھی کی کہ اگر کسی نے افغانستان پر دوبارہ فضائی حملہ کرنے کی کوشش کی تو افغانستان دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے سخت رویے اور ان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ قریبی تعلقات نے حقانی خاندان کے پاکستان کے ساتھ ماضی کے روایتی تعلق کو کمزور کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے گزشتہ برس دسمبر میں پکتیکا کے ضلع برمل میں فضائی کارروائیاں کی تھیں، جس کے بعد حقانی خاندان کے ساتھ تعلقات مزید کشیدہ ہو گے۔ اس کشیدگی کی تازہ لہر پکتیکا اور خوست میں حالیہ جھڑپوں کے بعد بڑھی ہے، جہاں پاکستانی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا گیا۔
ایسے میں پاکستان اور افغان طالبان کے مابین 6 نومبر کو استنبول میں ہونے والے مذاکرات کی کامیابی پر بے یقینی کے سائے منڈ لارہے ہیں۔ اس کا بڑا سبب بے اعتمادی اور الزامات لگانے کا تسلسل ہے۔ اگر مذاکرات کے گزشتہ دور کے اختتام پر جاری اعلامیے میں ایک شق یہ بھی ڈال دی جاتی کہ اس ایک ہفتے کے دوران زبان بندی یقینی بنائی جائے گی تو شاید صورت حال اتنی خراب نہ ہوتی۔
