تحریک انصاف اب حکومت کے لیے خطرہ کیوں نہیں رہی؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ تحریک انصاف اب موجودہ حکومت کیلئے خطرہ نہیں رہی۔ انکا کہنا ہے کہ عمران خان کی ہدایت پر تحریک انصاف نے 27 ستمبر کو پشاور میں ایک جلسہ بھی کر لیا لیکن وہ بھی حکومت کیلئے کوئی خطرہ نہیں بنا۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تحریر میں حامد میر کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بھی حکومت کو اپنے لئے کوئی خطرہ نظر نہ آئے لیکن خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں اور آزاد کشمیر میں بے چینی تیزی سے بڑھ رہی ہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ انکا کہنا ہے کہ مانا کہ تحریک انصاف کی قیادت کو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے، عدلیہ اور میڈیا کو بھی قابو کیا جا سکتا ہے لیکن جس روز عوام کا غم و غصہ قابو سے باہر ہو گیا تق اس حکومت کیلئے مشکل ہو سکتی ہے۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے عوام کیساتھ بانی پاکستان محمد علی جناح نے جو وعدے کئے تھے انہیں فراموش کر دیا گیا۔ جناح نے 17 اپریل 1947 کو پشاور میں تمام قبائلی علاقوں کے دو سو سے زائد عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے قیام پاکستان کیلئے قبائل کی حمایت کا شکریہ ادا کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ ہمیں آپ پر بھر پور اعتماد ہے اسلئے ہم وزیرستان سے فوج واپس بلا رہے ہیں۔ اس تقریر میں قائد نے یہ بھی کہا کہ ہم آپکی اندرونی آزادی میں کوئی مداخلت نہیں کرینگے بلکہ ہم آپکو پوری عزت دیں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم آپکی بھلائی کیلئے جو بھی فیصلہ کریں گے وہ آپکے مشورے سے کرینگے۔ قبائلی عمائدین نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ انہیں صوبائی حکومت کے ماتحت نہ رکھا جائے بلکہ وفاق کے ماتحت رکھا جائے۔ قائد نے اُنکا یہ فیصلہ تسلیم کیا تھا۔ بہت سے قبائلی عمائدین کیساتھ جناح کی خط و کتابت بھی جاری رہتی تھی۔ ان میں خیبر ایجنسی کے آفریدی قبائل کے ایک رہنما ملک کے کے آفریدی سر فہرست تھے جنہوں نے مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام کو نہ روکنے کی صورت میں انتقام لینے کا اعلان کر دیا تھا۔ لیکن 17 ستمبر 1947 کو قائداعظم نے ان سے اپیل کی کہ وہ پرامن رہیں اور قتل عام کا جواب قتل عام سے نہ دیں۔
پختون قبائل سے قائد اعظم کے وعدوں کو سامنے رکھتے ہوئے 1973 کے آئین میں دفعہ 247 شامل کی گئی جسکی ذیلی شق چھ کے تحت قبائلی علاقوں کو وفاق کے ماتحت رکھا گیا لیکن مئی 2018 میں 25 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔ اس آئینی ترمیم کے پیچھے تب کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا کردار بڑا اہم تھا جنہوں نے یہ تاثر دیا کہ قبائلی علاقوں کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کے بعد ان علاقوں میں دہشتگردی ختم ہو جائے گی۔ افسوس کہ ان قبائلی علاقوں میں امن وامان کی صورتحال پہلے سے بھی زیادہ بگڑ چکی ہے۔ قبائلی علاقوں کی سات ایجنسیاں صوبے کا حصہ تو بن گئیں لیکن آج بھی یہاں کے عوام کو وہ حقوق حاصل نہیں ملے جو باقی علاقوں کے شہریوں کو حاصل ہیں ۔ اسی ناانصافی کی وجہ سے 25ویں آئینی ترمیم کو چار سو سے زائد قبائلی عمائدین نے 2020 میں سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ اس آئینی درخواست میں قائد کی اس تقریر کا حوالہ بھی دیا گیا جو انہوں نے 17 اپریل 1948 کو پشاور میں کی تھی۔ اس درخواست میں 25 ویں آئینی ترمیم کو قائد کے وعدوں کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ اس درخواست میں کہا گیا کہ آئین کی دفعہ 239 کے تحت پارلیمنٹ آئین میں ترمیم تو کر سکتی ہے لیکن دفعہ 247 کو آئین سے حذف نہیں کر سکتی۔ اس کیس کی چند سماعتیں ہوئیں لیکن 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد کوئی سماعت نہیں ہوئی۔ اب اگر کوئی کہے کہ قائد کا وعدہ ماضی کا ایک قصہ ہے، پارلیمنٹ نے جو فیصلہ کر دیا اُسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا تو پھر جواب میں کہا جائے گا کہ ہم آپکی پارلیمنٹ اور آئین کو نہیں مانتے۔
اسرائیل کی حمایتی خاتون شہباز شریف کے وفد میں کیوں تھی؟
حامد میر کہتے ہیں کہ افسوس کہ قبائلی علاقوں میں ریاست خود آئین کی دفعہ 256 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امن لشکر کے نام پر مسلح گروہوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ قبائلی علاقوں میں بد امنی کا افغانستان سے گہرا تعلق ہے۔ جب سے صدر ٹرمپ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ افغانستان کے بگرام ائر بیس پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتےہیں معاملات مزید پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ یہ سوال زیر بحث ہے کہ کیا امریکا بگرام ائر بیس تک رسائی کیلئے پاکستان کی مدد چاہتا ہے؟ پاکستان کو اس تنازعے میں الجھانا پاکستان کے مفاد میں ہو گا یا نہیں؟ حکومت اپنی سفارتی کامیابیوں کے دعوے تو بہت کر رہی ہے لیکن ٹرمپ کے اس بیان پر خاموشی کیوں ہے جس میں اُنہوں نے کہا کہ وہ بگرام ائر بیس اس لئے واپس چاہتے ہیں کیونکہ وہاں سے چین کی ایٹمی تنصیبات صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہیں ؟
