یورپین ممالک کیلئے فضائی آپریشن کی بحالی PIAکیلئے ایک چیلنج کیوں؟

اجازت ملنے کے باوجود یورپین ممالک کیلئے فضائی آپریشن کی بحالی قومی ائیر لائن پی آئی اے کیلئے ایک چیلنج بن گئی ۔”یورپ کے لیے پانچ سال بعد پروازوں کی بحالی نے پی آئی اے کے لیے امکانات تو پیدا کیے ہیں، مگر ساتھ ہی قومی ایئرلائن کو سخت آزمائش میں بھی ڈال دیا ہے۔ صرف 19 سے 20 جہازوں پر مشتمل محدود فلیٹ کے ساتھ اس وسیع آپریشن کو انجام دینا پی آئی اے انتظامیہ کیلئے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق قومی ایئرلائن کو نہ صرف پرانے طیاروں کی مرمت اور دیکھ بھال کے چیلنجز کا سامنا ہے بلکہ فلائٹ شیڈول کی تاخیر اور پروازوں کی منسوخی جیسے مسائل مسافروں کے اعتماد کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی آئی اے کم جہازوں کے ساتھ نئے یورپی روٹس پر بروقت اور معیاری سروس کیسے فراہم کرے گی؟
خیال رہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز پی آئی اے نے یورپ کے لیے اپنی فلائٹس بحال کر دی ہیں، جس سے یورپ میں مقیم پاکستانی مسافروں کے لیے اپنے ملک واپس آنا آسان اور کم خرچ ہو گیا ہے۔پیرس کے لیے بھی پی آئی اے کی فلائٹس بحال ہو چکی ہیں اور مسافر اپنا سفر شروع کر چکے ہیں، جبکہ برطانیہ کے لیے پروازیں جلد بحال ہونے والی ہیں۔علاوہ ازیں اب میلان اور بارسلونا کے لیے فلائٹس کی بحالی کی بھی بات کی جا رہی ہے، جس سے یورپی مسافروں کو مزید سہولت میسر آئےگی۔ جہاں ایک طرف یورپ میں مقیم پاکستانیوں نے اس اقدام پر خوشی کا اظہار کیا ہے، وہیں وہ اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ موجودہ فلیٹ اور محدود جہازوں کی تعداد آپریشنز کو متاثر کر سکتی ہے اور فلائٹ شیڈول میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔حقیقت میں یورپین ممالک کیلئے فضائی آپریشن شروع ہونے کے ساتھ ہی پروازوں میں تاخیر اور منسوخی کے واقعات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں جنہوں نے مسافروں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے تاہم پی آئی اے حکام کے مطابق اس وقت ایئر لائن کے فلیٹ میں 19 سے 20 جہاز فعال ہیں جو یورپی اور دیگر بین الاقوامی روٹس کے لیے آپریٹ کر رہے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پی آئی اے کے موجودہ فلیٹ میں زیادہ تر طیارے پرانے ہیں اور ان کی دیکھ بھال اور مرمت پر خاص توجہ دی جا رہی ہے جبکہ پروازوں کی بروقت روانگی اور نئے یورپی روٹس کے کامیاب آپریشن کے لیے ایئر لائن اپنی پلاننگ میں بہتری لارہی ہے۔
مبصرین کے مطابق پی آئی اے کی یورپ کے لیے پروازوں کی بحالی بلاشبہ ایک بڑی خبر ہے۔ پانچ برس بعد قومی ایئرلائن کی پرواز لاہور سے پیرس اتری تو نہ صرف یورپ میں مقیم پاکستانیوں کے چہروں پر مسکراہٹ لوٹ آئی بلکہ ایک بار پھر قومی ایئرلائن کے روشن مستقبل کی امیدیں بھی جاگ اٹھیں۔ براہ راست پروازوں کے آغاز نے یورپ میں رہنے والے پاکستانیوں کے لیے اپنے وطن آنا آسان اور کم خرچ بنا دیا ہے، لیکن اس خوشی کے ساتھ کئی خدشات بھی جڑے ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حال ہی میں پیرس سے پاکستان پہنچنے والی زینت محمودکہتی ہیں: "براہ راست پرواز نے ٹرانزٹ کے مسائل ختم کر دیے ہیں، لیکن تاخیر اور کینسلیشن اب بھی مسافروں کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔”
ہوابازی کے ماہرین کے مطابق یورپ میں پروازوں کی بحالی پی آئی اے کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے لیکن اصل چیلنج محدود اور پرانے فلیٹ کا ہے کیونکہ قوی ائیر لائن کے پاس موجودہ 19 سے 20 فعال جہاز اس قدر بڑے آپریشن کے لیے ناکافی ہیں۔ اگر تاخیر اور پروازوں کی منسوخی کا سلسلہ جاری رہا تو اعتماد بحال کرنے کی یہ کوشش پی آئی اے کیلئے الٹا نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
معاشی ماہرین یورپین ممالک کیلئے فلائٹ آپریشن کی بحالی کو پی آئی اے کی مالی حالت کے لیے ایک مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق براہ راست پروازیں آپریشنل لاگت کم کرتی ہیں، آمدنی بڑھاتی ہیں تاہم پی آئی اے کیلئے صرف روٹس کی بحالی کافی نہیں، اصل امتحان سروس کے معیار میں بہتری اور جہازوں کی جدید کاری ناگزیر ہے۔ دوسری جانب پی آئی اے حکام کے مطابق نئے یورپی روٹس کی بحالی کے لیے پلاننگ جاری ہے اور برطانیہ پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی آن لائن بکنگ اور کسٹمر سروس میں بھی بہتری کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ مسافروں کے مسائل کم ہوں۔ تاہم ماہرین کے مطابق پی ءی اے کو یورپین ممالک کیلئے فضائی آپریشن کو مربوط بنانے کیلئے جہازوں کی تعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ شیڈول میں شفافیت لانی ہوگی تاکہ پی آءی اے ایک بار پھر کھویا ہوا اعتماد دوبارہ جیت سکے۔
ماہرین کے بقول یورپی فلائٹس کی بحالی پی آئی اے کے لیے ایک نئی صبح کی نوید ضرور ہے، لیکن یہ خوشبو دیرپا اسی وقت ہوگی جب قومی ایئرلائن اپنے آپریشنز کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالے۔ یورپ میں پاکستانی کمیونٹی اپنی قومی ایئرلائن سے جڑے رہنے کے لیے پرعزم ہے، مگر اب ذمہ داری پی آئی اے پر ہے کہ وہ اپنی سروس کو اس سطح پر لے جائے کہ مسافر نہ صرف سہولت محسوس کریں بلکہ فخر کے ساتھ کہیں: "ہم اپنی قومی ایئرلائن کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔”
